دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

علمِ حدیث سے متعلق دوسرا نکتہ یہ ہے کہ

ایک ہی حدیث کے مختلف سلسلہ اسانید (طرق) بھی ہوتے ہیں‘ بایں معنی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث کئی سلسلہ اسانید (طرق) سے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک) پہنچتی ہے‘ چنانچہ ایک حدیث کی دو یا تین یا چار اور بعض دفعہ دس یا اس سے بھی زائد سندیں ہوتی ہیں۔

سلسلہ اسانید جس قدر زیادہ ہوں اسی قدر وہ حدیث (صحت کے اعتبار سے) مضبوط ہوتی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت اسی قدر معتمد ہوتی ہے‘ چنانچہ وہ حدیث جس کے (سلسلہ اسناد) کے ہر طبقہ میں دس سے زائد ثقہ راوی ہوں‘ اس حدیث کو متواتر سے موسوم کیا جاتا ہے جو کہ مسلمانوں کے نزدیک نقل وروایت کی سب سے بلند اور (مستند ترین) قسم ہے‘ جو مسئلہ دینِ اسلام میں زیادہ اہم ہوتا ہے جیسے اسلام کے ارکان‘ تو اس مسئلہ کى متواتر روایات بھی بہت زیادہ ہوتى ہیں اور اس مسئلہ کى روایت کى سندیں بھی متعدد ہوتی ہیں‘ اور جس مسئلہ کا تعلق فروع اور مستحبات سے ہے تو اس مسئلہ کى روایت کى سندیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا اہتمام بھی کم درجے کا ہوتا ہے۔

مسلمانوں نے جس علم کی روایت میں نقل کے دقیق اصولوں کا سب سے زیادہ اہتمام کیا وہ قرآن کریم ہے‘ قرآن کے نقل وروایت میں بڑی توجہ اور انتہائی اہتمام سے کام لیا گیا‘چنانچہ کتابوں میں اسے تحریر کیا گیا‘ سینوں میں محفوظ کیا گیا‘ اس کے الفاظ وحروف کی ادائیگی اور تلاوت کے اسلوب میں مہارت پیدا کی گئی‘ اسے ہزاروں راویوں نے نسل در نسل سند کے ساتھ ہزراوں لوگوں تک نقل کیا‘ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس میں تحریف وتبدیلی کو راہ نہ مل سکی‘ چنانچہ جو قرآن مغرب میں پڑھا جاتا ہے‘ ہو بہو وہی قرآن مشرق میں بھی پڑھا جاتا ہے اور وہی قرآن روئے زمین کے تمام گوشوں میں پڑھا جاتا ہے‘ جوکہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی مصداق ہے:

’’ہم نے ہی ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں”۔(الحجر:9)۔

ھ- مذکورہ تفصیلات کے بعد

آپ جان لیں کہ یہی وہ دین اسلام ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالی الوہیت میں یکتا ومنفرد ہے‘ اس کا شعار اور پہچان (لا الہ الا اللہ) ہے‘ یہی وہ اسلام ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے بطور دین کے پسند فرمایا۔

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام بطور دین پسند کر لیا”۔(المائدة:3)

اور یہی وہ دین اسلام ہے جس کے سوا اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی دین ہرگز قبول نہیں کرے گا۔

’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ شخص آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا”۔(آل عمران:85)۔

یہی وہ دینِ اسلام ہے جس پر ایمان لانے والا اور عمل صالح کرنے والا کامیابی سے ہمکنار ہو کر نعمتوں والی جنتوں میں داخل ہوگا۔

“جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے کام بھی اچھے کیے یقیناً ان کے لئے الفردوس کے باغات کی مہمانی ہے۔

جہاں وه ہمیشہ رہا کریں گے جس جگہ کو بدلنے کا کبھی بھی ان کا اراده ہی نہ ہوگا”۔(الكهف:107،108)۔

یہ وہ دین اسلام ہے جو انسانوں کے کسی خاص طبقہ میں محصور یا متعین صنف کے لئے مخصوص نہیں ہے‘ بلکہ ہر وہ شخص جو اس پر ایمان لائے اور اس کی طرف دعوت دے وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے اور وہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور محترم ہے

’’بے شک تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص اللہ کے نزدیک سب سے معزز ہے”۔(الحجرات: 13)۔

ہم یہ لازم سمجھتے ہیں کہ محترم قاری کی توجہ ایسے اہم امور کی طرف مبذول کرائیں جو لوگوں اور اس دین کے درمیان حائل ہوجایا کرتے ہیں اور انہیں دین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں

پہلا: دین اسلام کے عقیدہ‘ اس کی شریعت واحکام اور آداب سے ناواقفیت -لوگ جس سے ناواقف ہوتے ہیں‘ اس کے دشمن ہوتے ہیں- اسی لئے جو شخص دین اسلام کی معرفت حاصل کرنے کا جویا ہو اسے چاہئے کہ وہ پڑھے‘ خوب پڑھے اور بار بار پڑھے یہاں تک کہ اس دین کو اس کے اصلی مصادر ومآخذ کی روشنی میں جان لے‘ اسے چاہئے کہ ہر طرح کے تعصب سے کنارہ کش ہو کر حق کی تلاش کی خاطر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ روح کے ساتھ مطالعہ کرے۔

دوسرا: دین‘ رسم ورواج اور تہذیب وثقافت کے تئیں وہ تعصب جس کے ساتھ انسان نشو ونما پاتا ہے‘ اور باریکی اور سنجیدگی کے ساتھ اس دین کى صحت کے بارے میں نہیں سوچتا جس کا عقیدہ رکھتے ہوئے وہ نشو و نما پاتا ہے‘ اس کے اندر قومی عصبیت اپنا کام کرتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے باپ داداؤں کے دین کے سوا سارے دین کا انکار کرتا جاتا ہے‘ کیوں کہ عصبیت ہے ہی ایسی چیز جو نگاہوں پر پردہ ڈال دیتی‘ کانوں پر بند لگا دیتی اور عقلوں کو ناکارہ بنادیتی ہے‘ چنانچہ انسان آزادی اور غیر جانبداری کے ساتھ نہیں سوچ پاتا اور تاریکی اور روشنی میں تمیز کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

تیسرا: نفس کی خواہشات‘ اس کی چاہتیں اور شہوتیں‘ (یہ خواہشات انسان کی) سوچ وفکر اور اس کے ارادے کا رخ اپنی چاہت سے طے کرتی ہیں‘ اسے اس طرح بربادی کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں کہ اسے محسوس بھی نہیں ہو پاتا اور حق قبول کرنے اور اس کے سامنے سپر ڈالنے سے پوری قوت کے ساتھ اسے روکتی ہیں۔

چوتھا: بعض مسلمانوں کے اندر کچھ ایسی غلطیاں اور گمراہیاں پائی جاتی ہیں جنہیں جھوٹ اور بہتان کے طور پر اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے‘ جبکہ اسلام ان ساری غلطیوں سے بری ہے‘ تمام لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کا دین انسانوں کی غلطیوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔

حق اور ہدایت سے واقفیت حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو‘ اس سے لو لگائے‘ اس کے سامنے عاجزی اختیار کرے‘ ذلت وانکساری کے ساتھ اس سے یہ دعا کرے کہ اللہ اسے اس راہ مستقیم اور سیدھے دین کی رہنمائی کرے جو اللہ کو محبوب اور پسند ہے‘ اور جس (کے ذریعہ) بندہ کو خوشگوار زندگی اور ہمیشگی کی ایسی سعادت نصیب ہوتی ہے جس کے بعد کبھی شقاوت وبد بختی اسے چھو کر بھی نہ جائے‘ نیز یہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے جب بھی وہ پکارے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے

“جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے”۔(البقرة: 186)۔

الحمد للہ کتاب اپنے اختتام کو پہنچی۔

About The Author