دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

 اسلام کے ارکان

اسلام کے پانچ بنیادی اور ظاہری ارکان ہیں‘ مسلمان بندہ پر واجب ہے کہ ان ارکان کو لازم پکڑے تاکہ مسلمان ہونے کی صفت اس پر سچ ثابت ہو:

أ- پہلا رکن: کلمہ شہادت ”لا الٰہ الا اللہ‘ محمد رسول اللہ“ کا اقرار واعتراف ہے۔

یہی وہ پہلا کلمہ ہے جس کا اقرار کرنا اسلام قبول کرنے والے پر واجب ہے‘ چنانچہ اقرار کرے کہ: (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں)‘ ساتھ ہی اس کلمہ کے تمام معانی ومفاہیم کا عقیدہ بھی رکھے ‘ جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔

چنانچہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ ہی تن تنہا معبود حقیقی ہے‘ جس سے نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا‘ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے‘ نیز یہ کہ وہی خالق ہے اور اس کے سوا سب مخلوق ہیں‘ اور وہی معبود حقیقی ہے جو تمام تر عبادتوں کا تنہا مستحق ہے‘ پس اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی پالنہار‘ ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھے کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں‘ جن پر آسمان سے وحی نازل ہوئی‘ آپ اللہ کی طرف سے اس کے حکم اور نہی کو (دنیا والوں تک) پہنچانے والے پیغامبر تھے‘ آپ نے جن چیزوں کی خبر دی ان کی تصدیق کرنا‘ آپ نے جس چیز کا حکم دیا اسے بجا لانا اور جس چیز سے روکا اس سے باز رہنا واجب ہے۔

ب- دوسرا رکن : نماز قائم کرنا ہے

نماز کے اندر عبودیت وبندگی اور اللہ تعالی کے سامنے عاجزی وانکساری کے اثرات ومظاہر نمایاں ہوتے ہیں‘ اس لئے کہ بندہ خشوع وخضوع کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے‘ قرآنی آیات کی تلاوت کرتا ہے‘ مختلف قسم کی دعاؤں اور حمد وثنا کے ذریعہ اللہ کی تعظیم بجا لاتا ہے‘ اس کے سامنے رکوع کرتا اور سجدہ ریز ہوتا ہے‘ اس سے سرگوشی کرتا‘ اسے پکارتا اور اس سے اس کے بڑے فضل واحسان کا سوال کرتا ہے‘ معلوم ہوا کہ نماز بندہ اور اس کے اس پالنہار کے درمیان ایک رشتہ ہے جس نے اسے پیدا کیا‘ جو اس کے راز ونیاز اور ظاہر (وباہِر) سے بھی واقف اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ اس کے سجدہ کرنے سے آشنا ہے‘ نماز بندہ سے اللہ کی محبت‘ قربت اور رضا مندی کا سبب ہے‘ جو شخص اللہ کی بندگی سے تکبر کرتے ہوئے اعراض کرتا ہے‘ اللہ اس پر غصہ ہوتا اور اپنی لعنت بھیجتا ہے اور وہ دینِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے:

دن اوررات میں پانچ وقت کی نمازیں واجب ہیں‘ جو (اِن امور) پر مشتمل ہوتی ہیں: قیام کرنا اور سورہ فاتحہ پڑھنا:

“شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے واﻻ ہے۔

بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے۔

ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا۔

ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا‘ ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔(الفاتحة:1-7)۔

اس کے بعد قرآن کی جو آیتیں میسر ہوں ان کی تلاوت کرنا‘ رکوع وسجدہ کرنا‘ اللہ سے دعا کرنا‘ (اللہ اکبر) کہتے ہوئے‘اس کی بڑائی بیان کرنا‘ رکوع میں (سبحان ربي العظيم) اور سجدہ میں(سبحان ربي الأعلى) کہتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرنا۔

نماز ادا کرنے سے پہلے نمازی کے جسم‘ کپڑے اور نماز کی جگہ کا ہر قسم کی نجاست (پیشاب اور پاخانے) سے پاک وصاف ہونا اور نمازی کا پانی سے وضو کرنا ضروری ہے‘ بایں طور کہ اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھ کو دھوئے‘ سر کا مسح کرے پھردونوں پاؤں کو دھوئے۔

اور اگر وہ (بیوی سے مباشرت کرنے کی وجہ سے) جنبی (ناپاک) ہو تو پورے جسم کا غسل کرنا اس پر واجب ہے۔

ج- تیسرا رکن: زکاۃ ہے

وہ اصل پونجى کا ایک متعین حصہ (فیصد) ہے جسے اللہ نے مالداروں پر فرض قرار دیا ہے‘ جسے معاشرہ کے فقراء ومساکین یعنى اس کے مستحقین کو کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کی فقیری ومحتاجی دور کی جاسکے‘ نقد مال میں اس کی مقدار کل سرمایہ کا اڑھائی فیصد ہے‘ اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا جاتا ہے۔

یہ رکن ایک ایسا سبب ہے جس سے معاشرہ کے افراد کے درمیان سماجی ہم آہنگی رائج ہوتی ہے‘ ان کے درمیان محبت والفت پروان چڑھتی اور آپسی تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے‘ نیز مالدار اور خوشحال طبقہ کے تئیں غریب ونادار طبقہ کے دل سے حقد وحسد اور بغض وجلن کا جذبہ ختم ہوتا ہے‘ زکاۃ‘ معاش واقتصاد کو پروان چڑھانے‘ اس میں اٹھان پیدا کرنے‘ درست طریقہ سے مال کی گردش جاری رکھنے اور معاشرہ کے تمام طبقات تک اس کے پہنچنے کا ایک بنیادی سبب ہے۔

یہ زکاۃ ہر قسم کے مال میں واجب ہے‘ جیسے نقد مال‘ چوپائے‘ پھل‘ دانے اور سامان تجارت وغیرہ‘ البتہ اس کى نسبت سرمایہ مال کے اعتبار سے مختلف ہوتى ہے۔

د- چوتھا رکن: رمضان کا روزہ ہے

روزہ کا مطلب ہے: طلوعِ فجر سے لے کر غروب آفتاب تک عبادتِ الہی کی نیت سے کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ ہمبستری سے باز رہنا۔

ماہِ رمضان جس کا روزہ فرض قرار دیا گیا ہے‘ وہ قمری سال کا نواں مہینہ ہے‘ یہی وہ مہینہ ہے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول شروع ہوا۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں‘ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے”۔(لبقرة:185)۔

روزہ کے بیش بہا فوائد ہیں‘ ان میں یہ بھی ہے کہ اس سے صبر کی عادت ہوتی ہے اور دل میں ایمان اور تقوی کا ملکہ مضبوط ہوتا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ بندہ اور اللہ کے درمیان ایک راز ہے‘ کیوں کہ انسان یہ استطاعت رکھتا ہے کہ خلوت وتنہائی میں کھائے پیئے اور کسی کو خبر بھی نہ لگے‘ لیکن چونکہ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور اس کے احکام واوامر کی اطاعت کی خاطر اس سے باز رہتا ہے ‘ جب کہ وہ جان رہا ہوتا ہے کہ اس کی اس عبادت کو صرف اللہ ہی جان رہا ہے‘ اس لئے یہ روزہ ایمان اور تقوی میں اضافہ کا سبب ثابت ہوتا ہے‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نزدیک روزہ داروں کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے‘ بلکہ جنت میں ان کے لئے ایک خاص دروازہ ہے جس کا نام باب الریان ہے۔

ماہ رمضان کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں نفلی روزے رکھنا بھی مسلمان کے لئے مستحب ہے‘ سوائے عید الفطر اور عید الاضحی کے۔

ھ- پانچواں رکن: بیتِ حرام کا حج ہے

زندگی میں ایک مرتبہ مسلمان پر حج ادا کرنا فرض ہے‘ اگر ایک سے زائد مرتبہ حج کرے تو یہ نفلی ہوگا‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے”۔(آل عمران:97)۔

حج کے مہینہ میں‘جوکہ ہجری اور قمری سال کا آخری مہنیہ ہے‘ مسلمان (عازمِ حج) مکہ مکرمہ کے اندر شعائر کے مقامات پر جاکر (عبادت کرتا) ہے‘ اور مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مسلمان (عازمِ حج) اپنے تمام لباس کو تن سے اتار کر احرام کا لباس زیب تن کرتا ہے جوکہ دو سفید چادروں سے عبارت ہوتا ہے۔

اس کے بعد حج کے مختلف اعمال (ارکان وواجبات) ادا کرتا ہے‘ جیسے کعبہ مشرفہ کا طواف‘ صفا ومروہ کے درمیان سعی‘ عرفہ کے میدان میں وقوف اور مزدلفہ میں شب گزاری وغیرہ۔

روئے زمین پر ہونے والے (تمام اجتماعات میں) حج مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے‘ جس کے ذریعہ ان کے درمیان اخوت وہمدردی‘ رحمت ورافت اور نصح وخیر خواہی کا جذبہ غالب رہتا ہے‘ ان کا لباس ایک ہوتا ہے‘ عبادتیں ایک ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہوتی‘ سوائے تقوی کی بنیاد پر‘ اور حج کا اجر وثواب بہت بڑا ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:

(جو شخص حج کرے‘ پھر کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو‘ نہ فحش کام کرے اور نہ ہی فسق وفجور میں مبتلا ہو تو وہ ایسے گناہوں سے پاک واپس ہوگا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو)۔[4]

[4] اس حدیث کو بخاری (2/164) نے کتاب الحج‘ باب فضل الحج المبرور میں روایت کیا ہے۔

۵- ایمان کے ارکان

جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام کے ارکان سے مراد اس کے وہ ظاہری شعائر ہیں جنہیں مسلمان بجا لاتا ہے‘ اور ان کی ادائیگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندہ دین اسلام کا متبع اور پیروکار ہے‘ البتہ کچھ ارکان ایسے بھی ہیں (جن کا تعلق) دل کے اندرون سے ہے‘ مسلمان پر واجب ہے کہ ان ارکان پر ایمان لائے تاکہ اس کا اسلام درست ہو سکے‘ یہ (ارکان) ایمان کے ارکان سے موسوم ہوتے ہیں‘ یہ ایمان اس کے دل میں جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر اس کی ایمانی درجات بھی بلند ہوں گے اور وہ اللہ کے مومن بندوں کی فہرست میں داخل ہونے کا مستحق ہوگا‘ یہ رتبہ مسلمانوں کے عام رتبہ سے زیادہ بلند وبالا ہے‘ چنانچہ ہر مومن مسلمان ہے‘ لیکن ہر مسلمان مومنوں کے درجہ تک نہیں پہنچتا۔

اس لئے کہ یہ تو طے ہے کہ اس کے اندر ایمان کی اصلیت موجود ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ کمال ایمان سے بھی آراستہ ہو۔

ایمان کے چھ ارکان ہیں

اور وہ یہ ہیں: اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، قیامت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی و بُری تقدیر پر ایمان لانا۔

پہلا رکن: یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں‘ اس کے نتیجے میں دل اللہ کی محبت‘ اس کی عظمت‘ اس کے سامنے عاجزی وانکساری اختیار کرنے اور اس وحدہ لا شریک لہ کے احکام واوامر کو بجا لانے (کے جذبات) سے معمور ہوتا ہے‘ اسی طرح دل اللہ کے خوف اور اس کی نعمتوں کی امید سے بھی لبریز ہوتا ہے‘ چنانچہ ایسا بندہ اللہ کے متقی اور راہِ مستقیم پر چلنے والے بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔

دوسرا رکن: فرشتوں پر ایمان لانا اور یہ ایمان رکھنا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں جنہیں اللہ نے نور سے پیدا کیا‘ آسمان وزمین میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں اللہ کے سوا کوئی شمار نہیں کر سکتا‘ ان کی فطرت میں عبادت‘ ذکر اور تسبیح بیان کرنے کی خُو پیدا کی گئی ہے‘ چنانچہ وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔

“جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں”۔(التحريم: 6)۔

ان میں سے ہر ایک فرشتہ کے لئے متعین عمل ہے جس پر اللہ نے اسے مقرر کیا ہے‘ چنانچہ ان میں سے کچھ حاملینِ عرش ہیں‘ کوئی روح قبض کرنے پر مامور ہے‘ کوئی آسمان سے وحی اتارنے پر مکلف ہے اور وہ جبرئیل علیہ السلام ہیں‘ وہ تمام فرشتوں میں سب سے افضل ہیں‘ کچھ فرشتے جنت اور جہنم کی نگرانی پر مامور ہیں‘ ان کے علاوہ بھی بہت سے برگزیدہ فرشتے ہیں جو مومن انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لئے کثرت سے استغفار اور دعا کرتے ہیں۔

تیسرا رکن: اللہ کی جانب سے نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا

مسلمان اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ اللہ نے اپنے جن رسولوں پر چاہا اپنی کتابیں نازل فرمائی جو اللہ پاک کی سچی خبر اور منصفانہ حکم پر مشتمل تھیں‘ اللہ نے موسی پر تورات‘ عیسی پر انجیل‘ داود پر زبور اور ابرہیم پر صحیفے نازل فرمائے‘ یہ کتابیں آج اس شکل میں موجود نہیں ہیں جس شکل میں اللہ نے انہیں نازل فرمایا‘ اسی طرح مومن اس بات پر بھی ایمان لاتا ہے کہ اللہ نے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا‘ اس کی آیتیں پے در پے تیئیس سال کی (طویل) مدت میں نازل ہوئیں‘ اور اللہ نے اسے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رکھا:

’’ہم نے ہی ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں”۔(الحجر:9)۔

چوتھا رکن: رسولوں پر ایمان لانا

(رسولوں کے تعلق سے تفصیلی بات گزر چکی ہے) اور یہ (بھی گزر چکا ہے کہ) تاریخ کے ہر دور میں تمام قوموں کی طرف اللہ نے نبیوں کو معبوث فرمایا‘ ان سب کا دین ایک تھا‘ انہوں نے انسانوں کو اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی دعوت دی اور انہیں کفر وشرک اور نافرمانی سے منع کیا:

“کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو”۔(فاطر 24)۔

وہ انبیائے کرام بھی دیگر انسانوں کی طرح انسان ہی تھے‘ لیکن اللہ نے انہیں اپنے دین اور پیغام کی تبلیغ کے لئے منتخب فرمایا:

“یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوﻻد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔

اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔

ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔ اللہ تعالی بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے”۔(النساء 163-165)۔

مسلمان ان تمام رسولوں پر ایمان لاتا ہے‘ ان سب سے محبت رکھتا اور ان سب کی حمایت کرتا ہے اور ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتا‘ بلکہ جو شخص ان میں سے کسی ایک رسول کا بھی انکار کرے‘ یا انہیں گالی دے‘ یا سب وشتم کرے اور اذیت پہنچائے تو وہ تمام رسولوں کا منکر قررا پائے گا۔

ان میں سب سے بہتر‘ سب سے افضل اور اللہ کے نزدیک سب سے عظیم مقام ومرتبہ کے حامل تمام خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

پانچواں رکن : یومِ آخرت پر ایمان

(اس بات پر ایمان لانا کہ) اللہ تعالی قیامت کے دن تمام بندوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا اور میدان محشر میں جمع کرے گا‘ تاکہ دنیاوی زندگی میں انہوں نے جو اعمال کئے ان کا حساب وکتاب لے:

“جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے روبرو ہوں گے”۔(إبراهيم: 48)۔

“جب آسمان پھٹ جائے گا۔

اور جب ستارے جھڑ جائیں گے۔

اور جب سمندر بہہ نکلیں گے۔

اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی۔

(اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کر لے گا”۔(الإنفطار 1-5)۔

“کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔

اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے؟

آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وه زنده کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے واﻻ ہے۔

وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو۔

جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ،کیا وه ان جیسوں کے پیدا کرنے پرقادر نہیں، بے شک قادر ہے۔ اور وہی تو پیدا کرنے واﻻ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتی ہے۔

پس پاک ہے وه اللہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے”۔(يس: ٧٧-٨٣)۔

“قیامت کے دن ہم درمیان میں ﻻ رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو، پھر کسی پر کچھ بھی ﻇلم نہ کیا جائے گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے ﻻ حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے”۔(الأنبياء: 47)۔

’’سو جو کوئی ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جس کسی نے ذرہ بھر بھی بدی کی ہوگی اسے بھی دیکھ لے گا”۔(الزلزلہ: 7، 8)۔

جس پر اللہ کا غضب‘ غصہ اور سخت عذاب ثابت ہوچکا ہوگا اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور نیکیاں کرنے والے مومنوں کے لئے جنت کے دروازے وا کردئے جائیں گے۔

“فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے‘ کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے رہے”۔(الأنبياء 103)۔

“کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، جب وه اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جائیں گے، اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ﺛابت ہو گیا۔ کہا جائے گا کہ اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ جہاں ہمیشہ رہیں گے‘ پس سرکشوں کا ٹھکانا بہت ہی برا ہے۔

اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروه کے گروه جنت کی طرف روانہ کیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آ جائیں گے اور دروازے کھول دیے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو‘ تم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔

یہ کہیں گے کہ اللہ کاشکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعده پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے”۔(الزمر 71-75)۔

اس جنت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ جنہیں نہ کسی کی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کانوں نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گزرا:

“کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔

کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے۔

لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو”۔(السجدة 17-20)۔

“اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعده کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے واﻻ نہیں، اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزه نہیں بدﻻ اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے بڑی لذت ہے اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہیں اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، کیا یہ مثل اس کے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہنے واﻻ ہے؟ اور جنہیں گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا”۔(محمد 15)۔

“یقیناً پرہیزگار لوگ جنتوں میں اور نعمتوں میں ہیں۔

جو انہیں ان کے رب نے دے رکھی ہیں اس پر خوش خوش ہیں، اوران کے پروردگار نے انہیں جہنم کے عذاب سے بھی بچا لیا ہے۔

تم مزے سے کھاتے پیتے رہو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔

برابر بچھے ہوئے شاندار تختے پر تکیے لگائے ہوئے۔ اور ہم نے ان کا نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی (حوروں) سے کر دیئے ہیں”۔(الطور 17-20)۔

اللہ تعالی ہم سب کو جنتیوں میں شامل فرمائے۔

About The Author