دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

ط- الله كے رسول موسی علیہ السلام

پھر مصر میں ایک سرکش اور متکبر بادشاہ کا ظہور ہوا جسے فرعون کہا جاتا ہے‘ وہ الوہیت کا دعوی کرتا اور لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیتا تھا‘ جس کو چاہتا ذبح کردیتا اور جس پر چاہتا ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاتا‘ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ہمیں اس کی خبر دی ہے

“یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروه گروه بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زنده چھوڑ دیتا تھا، بے شک وشبہ وه تھا ہی مفسدوں میں سے.

پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بےحد کمزور کر دیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں۔

اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وه دکھائیں جس سے وه ڈر رہے ہیں۔

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی ره اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج وغم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں[1]۔

آخر فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعث بنا، کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطاکار۔

اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائده پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں اور یہ لوگ شعور ہی نہ رکھتے تھے۔

موسیٰ (علیہ السلام) کی والده کا دل بے قرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وه یقین کرنے والوں میں رہے۔

موسیٰ (علیہ السلام) کی والده نے اس کی بہن سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا، تو وه اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی اور فرعونیوں کو اس کا علم بھی نہ ہوا۔

ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا، یہ کہنے لگی کہ کیا میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لیے پرورش کرے اور ہوں بھی وه اس بچے کے خیر خواه۔

پس ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایا، تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزرده خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ تعالی کا وعده سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے تو ہم نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا، نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔

اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے، یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے، اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی، جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو مکا مارا جس سے وه مر گیا،موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے، یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے واﻻ ہے۔

پھر دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ﻇلم کیا، تو مجھے معاف فرما دے، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا، وه بخشش اور بہت مہربانی کرنے واﻻ ہے۔

کہنے لگے اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا۔

صبح ہی صبح ڈرتے اندیشہ کی حالت میں خبریں لینے کو شہر میں گئے، کہ اچانک وہی شخص جس نے کل ان سے مدد طلب کی تھی ان سے فریاد کر رہا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تو صریح بے راه ہے۔

پھر جب اپنے اور اس کے دشمن کو پکڑنا چاہا تو وه فریادی کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام)! کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے، تو تو ملک میں ﻇالم وسرکش ہونا ہی چاہتا ہے اور تیرا یہ اراده ہی نہیں کہ ملاپ کرنے والوں میں سے ہو۔

شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان۔

پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزده ہوکر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے، کہنے لگے اے پروردگار! مجھے ﻇالموں کے گروه سے بچا لے۔

اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راه لے چلے گا۔

مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وه بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔

پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔

اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی، کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وه کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ﻇالم قوم سے نجات پائی۔

ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وه ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔

اس بزرگ نے کہا میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں، ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے‘ میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے۔

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو، ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ (گواه اور) کارساز ہے۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوهِ طور کی طرف آگ دیکھی، اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر ﻻؤں یا آگ کا کوئی انگاره ﻻؤں تاکہ تم سینک لو.

پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے آواز دیے گئے کہ اے موسیٰ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔

اور یہ (بھی آواز آئی) کہ اپنی ﻻٹھی ڈال دے، پھر جب اسے دیکھا کہ وه سانپ کی طرح پھن پھنا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر واپس ہوگئے اور مڑ کر رخ بھی نہ کیا، ہم نے کہا اے موسیٰ! آگے آ ڈر مت، یقیناً تو ہر طرح امن واﻻ ہے.۔

اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال وه بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا نکلے گا بالکل سفید اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے، پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، یقیناً وه سب کے سب بےحکم اور نافرمان لوگ ہیں۔

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا، اب مجھے اندیشہ ہے کہ وه مجھے بھی قتل کر ڈالیں۔

اور میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) مجھ سے بہت زیاده فصیح زبان واﻻ ہے تو اسے بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج کہ وه مجھے سچا مانے، مجھے تو خوف ہے کہ وه سب مجھے جھٹلا دیں گے.

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے، بسبب ہماری نشانیوں کے، تم دونوں اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب رہیں گے”۔(القصص:4-35)[1] ان کی ماں نے ان کو تابوت میں رکھ کر سمندر میں ڈال دیا۔

موسی علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون‘ فرعون -جوکہ متکبر بادشاہ تھا- کی طرف نکل پڑے تاکہ اسے اللہ کی عبادت کی دعوت دیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے:

“فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے؟

(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔

فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے؟

(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا پروردگار ہے۔

فرعون نے کہا (لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا! وہی مشرق ومغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔

فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دوں گا۔

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟

فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر۔

پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وه صاف ایک اﮊدھا بن گیا۔

اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وه یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا۔

فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے۔

یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سر زمین سے ہی نکال دے، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو۔

ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے۔

جو آپ کے پاس ذی علم جادو گروں کو لے آئیں۔

پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کیے گئے.

اور عام لوگوں سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں حاضر ہوجاؤ گے؟

تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم ان ہی کی پیروی کریں۔

جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟

فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے۔

(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو۔

انہوں نے اپنی رسیاں اور ﻻٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے۔

اب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی ﻻٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا۔

یہ دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے۔

کہنے لگے کہ ہم ایمان ﻻئے رب العالمین پر۔

جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے۔

فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وه بڑا (سردار) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، سو تمہیں ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا، قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔

انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں، ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ہی۔

اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلےایمان والے بنے ہیں ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا۔

اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کیے جاؤ گے۔

فرعون نے شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیا۔

کہ یقیناً یہ گروه بہت ہی کم تعداد میں ہے۔اور اس پر یہ ہمیں سخت غضب ناک کر رہے ہیں۔اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے۔بالآخر ہم نےانہیں باغات سے اور چشموں سے‘

اور خزانوں سے اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا۔

اسی طرح ہوا اور ہم نےان (تمام) چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا۔

پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے۔

پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو یقیناً پکڑ لیے گئے۔

موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راه دکھائے گا۔

ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی ﻻٹھی مار، پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔

اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک ﻻ کھڑا کر دیا.

اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی۔

پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا۔

یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کے اکثر لوگ ایمان والے نہیں۔

اور بے شک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے واﻻ۔(الشعراء:23-67)

جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اللہ تعالی نے جواب دیا

“اب ایمان ﻻتا ہے؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔

سو آج ہم صرف تیری ﻻش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں” [يونس:91 ،92] ۔۔۔

اللہ تعالی نے (موسی علیہ السلام کی قوم) کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے‘ اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا‘ جس میں اللہ نے برکت رکھی ہے‘ اور اللہ نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے‘ سب کو درہم برہم کردیا۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے موسی پر تورات نازل فرمائی‘ جس میں لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے جو انہیں اللہ کے محبوب اور پسندیدہ کاموں کی رہنمائی کرتا ہے‘ اور اس میں حلال وحرام کی وضاحت بھی ہے جس کی اتباع کرنا (موسی علیہ السلام کی قوم) بنی اسرائیل پر واجب قرار دیا گیا۔

پھر موسی علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور ان کے بعد اللہ نے ان کی قوم -بنی اسرائیل- کی طرف بہت سے نبیوں کو معبوث فرمایا جو انہیں سیدھے راستے کی رہنمائی کرتے تھے‘ جب بھی کوئی نبی وفات پاتا تو ان کے بعد کوئی دوسرا نبی مبعوث ہوتا۔

ان میں سے بعض نبیوں کے قصے اللہ نے بیان کیا ہے جیسے داود‘ سلیمان‘ ایوب اور زکریا (علیہم السلام)‘ جب کہ ان میں سے بہت سارے نبیوں کے بارے میں ہمیں تفصیل نہیں بتائی‘ پھر (بنی اسرائیل کے) ان نبیوں کا سلسلہ عیسی بن مریم علیہ السلام پر ختم کیا جن کی زندگی نشانیوں سے بھری ہوئی تھی‘ ان کی ولادت سے لے کر آسمان کی طرف ان کے اٹھائے جانے تک۔

وہ تورات جسے اللہ نے موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا‘ نسل در نسل وہ ان یہودیوں کے ہاتھوں تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوتی چلی گئی‘ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ موسی علیہ السلام کے پیروکار ہیں‘ جب کہ موسی علیہ السلام ان سے بری ہیں‘ وہ تورات جو (ابھی) ان کے ہاتھوں میں ہے‘ وہ اب اس شکل میں نہیں رہی جس شکل میں اللہ نے اسے نازل کیا تھا‘ کیوں کہ اس میں ایسے امور داخل کردئے گئے جن کا اللہ سے صادر ہونا لائق وزیبا نہیں‘ موجودہ تورات میں ان یہودیوں نے اللہ تعالی کو نقص وعیب‘ جہالت اور کمزوری جیسی صفات سے متصف کیا ہے -اللہ تعالی ان کی باتوں سے بہت زیادہ بلند وبرتر ہے- اللہ تعالی ان کے بارے میں فرماتا ہے:

“ان لوگوں کے لئے “ویل” ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل (ہلاکت) اور افسوس ہے”۔(البقرة:79)۔

About The Author