دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

 سب سے پہلے رسول ہمارے بابا آدم علیہ السلام ہیں

اللہ تعالی نے ہمارے بابا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر ان میں روح پھونک دی‘ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:

“اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔

حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجده نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے، جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے خاک سے پیدا کیا ہے۔

حق تعالیٰ نے فرمایا آسمان سے اتر تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں ره کر تکبر کرے سو نکل بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔

اس نے کہا کہ مجھ کو مہلت دے قیامت کے دن تک۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی”۔(الأعراف 10-15)

چنانچہ ابلیس نے اللہ سے درخواست کی کہ اسے مہلت دے اور فورا سزا میں مبتلا نہ کرے‘ اسے آدم اور اس کی نسل کو گمراہ کرنے کی اجازت دے‘ محض اس بنا پر کہ وہ ان سے بغض وحسد رکھتا تھا‘ چنانچہ اللہ نے کسی حکمت کے تحت شیطان کو یہ اجازت دی کہ آدم اور ان کی اولاد پر غالب ہو کر انہیں گمراہ کردے‘ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے‘ ساتھ ہی آدم اور ان کی اولاد کو بھی یہ حکم دیا کہ شیطان کی پرستش نہ کریں‘ اس کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اس سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہیں‘ شیطان نے سب سے پہلے آدم اور ان کی بیوی حواء (جن کو اللہ نے ان کی پسلی سے پیدا کیا) کو گمراہ کرنے کی شروعات کی‘ اس قصہ کو اللہ پاک نے یوں ذکر فرمایا ہے:

“اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو،پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ﻇالموں میں سے ہوجاؤ گے۔

پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈاﻻ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔

اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں۔

سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔

فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے۔

اے آدم (علیہ السلام) کی اوﻻد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔

اے اوﻻدِ آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے، وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو، ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں ﻻتے”۔(الأعراف 19-27)

جب آدم عليه السلام زمین پر اترےاور انہیں آل واولاد ہوئیں‘(تو اس کے بعد) آپ علیہ السلام وفات پاگئے‘پھر نسل در نسل ان کی اولاد بڑھتی رہی‘وہ شیطان کی گمراہیوں کے شکار ہوگئے‘ان کے اندر بے راہ روی اور اپنے نیک وصالح بزرگوں کی قبروں کی پرستش راہ پاتی گئی اور وہ ایمان سے توحید کی طرف منتقل ہوگئے‘اس کے بعد اللہ نے ان کی طرف انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا اور وہ تھے (نوح علیہ السلام)

About The Author