دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

د- اس دین کے صحیح نقل کے تئیں مسلمانوں کی توجہ اور ان کا اہتمام

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور آپ کی تقریرات سے اللہ تعالی کے کلام کی توضیح اور دینِ اسلام کے اوامر ونواہی کی تشریح ہوتی ہے‘ اس لئے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کے صحیح نقل پر بڑی توجہ دی اور اِن منقول (مرویات) کو ان اضافوں سے پاک کرنے کے لئے انتہائی جد وجہد کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں ہیں‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹے اقوال کو طشت ازبام کرنے کے لئے جان توڑ محنت کی‘ اس کے لئے نہایت دقیق قواعد اور ایسے اصول وضع کئے کہ ان احادیث کو نسل در نسل نقل کرتے ہوئے ان کی رعایت وپاسداری کرنا لازم ہے۔

ہم حد درجہ اختصار کے ساتھ اس علم (علمِ حدیث) کے تعلق سے بات کرنے جا رہے ہیں تاکہ قاری کے سامنے وہ امتیازی خصوصیت عیاں ہوسکے جو امت مسلمہ کو دیگر تمام اقوام وملل سے ممتاز کرتی ہے‘ بایں طور کہ اللہ نے امت مسلمہ کے لئے اپنے دین کی صاف وشفاف شکل کو محفوظ رکھا‘ صدیوں گزرنے کے بعد بھی جھوٹی اور منگھڑت روایات اور بے بنیاد خرافات اس دین میں خلط ملط نہ ہو سکیں۔

اللہ تعالی کے کلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے نقل کی عمارت دو بنیادی اصولوں پر کھڑی ہے:

سینوں میں محفوظ کرنا اور کتابوں میں تحریر کرنا‘ پہلے کے مسلمانوں کو تمام قوموں سے زیادہ پختہ حفظ اور وسیع فہم کی قوت حاصل تھی‘ اس کی وجہ یہ تھی ان کا ذہن صاف اور حافظہ مضبوط تھا‘ یہ بات ہر اس شخص کے لئے معلوم اور واضح ہے جو ان کی سیرت وتاریخ سے باخبر ہے‘ چنانچہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حدیث سنتے ہی اسے اچھی طرح یاد کرلیتے‘ پھر اسے تابعی تک پہنچاتے جو اسے یاد رکھتے‘ پھر وہ اپنے بعد والے تک پہنچاتے‘ اس طرح حدیث کو سند کے ساتھ نقل کرنے کا عمل جاری رہتا یہاں تک کہ کسی محدث تک وہ حدیث پہنچتی جو احادیث لکھتے‘ انہیں زبانی یاد کرتے‘ انہیں کسی کتاب میں جمع کرتے اور اس کتاب کو اپنے شاگردوں کے پاس پڑھـتے‘ چنانچہ وہ شاگرد بھی ان احادیث کو یاد کرتے اور لکھتے‘ پھر وہ اپنے شاگردوں کے پاس ان احادیث کو پڑھتے‘ اسی طرح یہ سلسلہ پیہم اور مسلسل جاری وساری رہتا‘ یہاں تک کہ یہ کتابیں اسی طریقہ اور اسی انداز سے آنے والی تمام نسلوں تک پہنچ جاتیں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی بھی ایسی حدیث مطلق طور پر قابل قبول نہیں جس کی سند کے وہ رواۃ معلوم نہ ہوں جنہوں نے یہ حدیث ہم تک نقل کی ہو۔

اس سے ایک اور علم وجود میں آیا جو امت مسلمہ کو دیگر تمام امتوں سے ممتاز کرتا ہے‘ وہ ہے علم الرجال یا علم الجرح والتعدیل۔

یہ وہ علم ہے جو ان راویوں کی حالات سے بحث کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نقل کرتے ہیں‘ چنانچہ یہ علم ان رواۃ کی شخصی زندگی‘ ان کی تاریخ ولادت ووفات‘ ان کے اساتذہ اور شاگرد‘ ان کے ہم عصر علماء کا انہیں ثقہ اور قابل اعتماد قرار دینے‘ ان کے حفظ واتقان کے معیار کا پتہ لگانے‘ ان کی امانت داری اور صدق گوئی جیسے ان تمام امور کا اہتمام کرتا ہے جن کا تعلق علم حدیث سے ہے‘ تاکہ رواۃ کے اس سلسلہ اسناد سے جو حدیث مروی ہو‘ اس کی صحت (وضعف) کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔

یقینا وہ ایک ایسا علم ہے جس میں یہ امت منفرد ہے‘ اس کی وجہ اس امت کا یہ اہتمام ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہی بات منسوب کی جائے جس (کا انتساب) آپ کی طرف صحیح ہو‘ ابتدائے تاریخ سے آج تک کسی انسان کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کے اہتمام میں اتنی بے پناہ اور بے انتہا جد وجہد نہیں کی گئی جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تعلق سے کی گئی۔

یہ ایک وسیع وعریض علم ہے جو ایسی کتابوں میں مدون ہے جن کتابوں نے روایتِ حدیث کا مکمل اہتمام کیا اور ہزاروں راویوں کی شخصی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالی‘ صرف اس لئے کہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث منتقل کرنے والے واسطے تھے‘ اس علم میں کسی شخص کی رعایت نہیں کی گئی‘ بلکہ اس علم نے دقیق نقد وتبصرہ میں ترازو کی طرح منصفانہ کردار ادا کیا‘ کذاب (جھوٹے) کو جھوٹا کہا گیا‘ صادق ( سچے) کو سچا کہا گیا‘ جس کا حافظہ کمزور تھا اور جس کا مضبوط تھا‘ ان کی یہ صفات بھی صراحت کے ساتھ بیان کی گئیں‘ اس کے لئے محدثین نے نہایت دقیق قواعد وضع کئے جن سے اہل فن واقف ہیں۔

حدیث اس وقت تک صحیح نہیں مانی جاتی جب تک کہ راویوں کا سلسلہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا نہ ہو‘ اور ان راویوں میں عدالت (دینداری)‘ صدق گوئی اور ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ نہ پایا جاتا ہو۔

About The Author