ی- الله كے رسول عیسی علیہ السلام
مريم بنت عمران ایک پاک دامن‘ با عفت اور عبادت گزار خاتون تھیں‘ وہ موسی علیہ السلام کے بعد آنے والے نبیوں پر اللہ کے جو احکام نازل ہوئے‘ ان کی پیروکار تھیں‘ وہ اس خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں جسے اللہ نے دنیاوالوں میں سے منتخب فرمایا تھا‘ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
“بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو، ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرما لیا”۔(آل عمران:33)۔
فرشتوں نے ان کو یہ خوش خبری دی کہ اللہ نے ان کو چن لیا ہے
“اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیده کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔
اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجده کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر”۔(آل عمران:42 ،43)۔
پھر اللہ تعالی نے یہ خبر دی کہ کس طرح بغیر باپ کے عیسی علیہ السلام کو اللہ نے مریم کے رحم میں پیدا فرمایا‘ جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں آیا ہے:
:اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر جب کہ وه اپنے گھر کے لوگوں سے علیحده ہو کر مشرقی جانب آئیں۔
اور ان لوگوں کی طرف سے پرده کر لیا، پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح (جبرائیل علیہ السلام) کو بھیجا پس وه اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا۔
یہ کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناه مانگتی ہوں اگر تو کچھ بھی اللہ سے ڈرنے واﻻ ہے۔
اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تجھے ایک پاکیزه لڑکا دینے آیا ہوں۔
کہنے لگیں بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان کا ہاتھ تک نہیں لگا اور نہ میں بدکار ہوں۔
اس نے کہا بات تو یہی ہے،لیکن تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ وه مجھ پر بہت ہی آسان ہے ہم تو اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیں گے اور اپنی خاص رحمت، یہ تو ایک طے شده بات ہے.
پس وه حمل سے ہو گئیں اوراسی وجہ سے وه یکسو ہو کر ایک دور کی جگہ چلی گئیں۔
پھر درِد زه انہیں ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔
اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزرده خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔
اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے تروتازه پکی کھجوریں گرا دے گا۔
اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ، اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمنٰ کے نام کا روزه مان رکھا ہے، میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔
اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لئے ہوئے وه اپنی قوم کے پاس آئیں، سب کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی۔
اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔
مریم نے اپنے بچے کی طرف اشاره کیا، سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟
بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بنده ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے۔
اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زنده رہوں۔
اور اس نے مجھے اپنی والده کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں کیا۔
اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہی سلام ہے۔
یہ ہے صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا، یہی ہے وه حق بات جس میں لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے لئے اوﻻد کا ہونا ﻻئق نہیں، وه تو بالکل پاک ذات ہے، وه تو جب کسی کام کے سر انجام دینے کا اراده کرتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتا ہے۔
میرا اور تم سب کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راه ہے”۔(مريم:16-36)۔
جب عیسی علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کی عبادت کی دعوت تو کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی اور بہت سے لوگوں نے ٹھکرا دیا‘ پھر بھی آپ دعوتی کاز پر ڈٹے رہے اور لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے‘ لیکن بہت سے لوگوں نے آپ کا انکار کیا اور آپ سے دشمنی کرنے لگے‘ بلکہ وہ آپ پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو جان سے مار ڈالنے کی کوشش کی! تب اللہ نے آپ سے فرمایا:
“اے عیسی! میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں”۔(آل عمران:55)۔
جو لوگ عیسی علیہ السلام کا پیچھا کر رہے تھے ان میں سے ایک شخص کو اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام جیسی (شکل وصورت) دے دی‘ چنانچہ پیچھا کرنے والوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور اس گمان میں رہے کہ وہی عیسی بن مریم علیہ السلام ہیں‘ چنانچہ اسے قتل کرکے سولی پر چڑھا دیا‘ جبکہ اللہ کے رسول عیسی بن مریم علیہ السلام کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا‘ اور دنیا کو چھوڑنے سے قبل انہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ بشارت دی کہ اللہ تعالی ایک دوسرے رسول کو مبعوث فرمائے گا جس کا نام احمد ہوگا اور اس کے ذریعہ اللہ تعالی دین کو پھیلائے گا‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
“اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے (میری قوم)، بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے واﻻ ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے واﻻ ہوں جن کا نام احمد ہے”۔(الصف:6)۔
پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد عیسی علیہ السلام کے پیروکار مختلف گروہوں میں بٹ گئے‘ ان میں سے ایک گروہ ایسا نکلا جس نے عیسی علیہ السلام کے سلسلے میں غلو سے کام لیا اور آپ کو اللہ کا بیٹا گرداننے لگا -اللہ تعالی ان کی باتوں سے بہت زیادہ بلند وبرتر ہے- اس دعوی کو اس چیز نے ان کے لئے مزید خوبصورت بنادیا کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا ہوتے ہوئے دیکھا‘ چنانچہ اللہ تعالی اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
“اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہو بہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! پس وه ہو گیا!”۔(آل عمران:59)۔
معلوم ہوا کہ بغیر باپ کے عیسی علیہ السلام کی تخلیق اس سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے کہ آدم کی تخلیق باپ اور ماں دونوں کے بغیر ہوئی۔
اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن میں یہ کہتے ہوئے بنی اسرائیل کو مخاطب کیا تاکہ وہ کفر سے باز آجائیں
“اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شده) ہیں، جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ عبادت کے ﻻئق تو صرف ایک ہی ہے اور وه اس سے پاک ہے کہ اس کی اوﻻد ہو، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے،اور اللہ کافی ہے کام بنانے واﻻ۔
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔
پس جو لوگ ایمان ﻻئے ہیں اور شائستہ اعمال کئے ہیں ان کو ان کا پورا پورا ﺛواب عنایت فرمائے گا اور اپنے فضل سے انہیں اور زیاده دے گا اور جن لوگوں نے ننگ و عار اور سرکشی اور انکار کیا، انہیں المناک عذاب دے گا اور وه اپنے لئے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی، اور امداد کرنے واﻻ نہ پائیں گے”۔(النساء:171-173)۔
اللہ تعالی قیامت کے دن عیسی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمائے گا
“اور وه وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوه اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا، تمام غیبوں کا جاننے واﻻ تو ہی ہے۔
میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، میں ان پر گواه رہا جب تک ان میں رہا۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔
اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبردست حکمت واﻻ ہے۔
اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وه دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وه ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی (بھاری) کامیابی ہے”۔(المائدة:116-119)۔
یہی وجہ ہے کہ مسیح عیسی بن مریم -علیہ السلام- ان کروڑوں لوگوں سے بری ہیں جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عیسی مسیح کے پیروکار ہیں۔