دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ)

دینِ اسلام کا بنیادی اصول کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ) ہے‘ اس پختہ بنیاد کے بغیر اسلام کی بلند وبالا عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی‘ یہ وہ اولین کلمہ ہے جسے زبان سے ادا کرنا‘ اس پر ایمان لانا اور اس کے تمام معانی ومفاہیم کا عقیدہ رکھنا اسلام میں داخل ہونے والے شخص پر واجب ہے‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا معنی ومطلب کیاہے؟

لا الہ الا اللہ کا مطب ہے

– کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔

– اللہ کے سوا اس کائنات کا نہ کوئی مالک ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس میں تصرف کرنے والا ہے۔

– اللہ کے سوا کوئی بھی معبود عبادت وبندگی کا مستحق نہیں ہے۔

اللہ وہ ہے جس نے اس وسیع وعریض‘ خوبصورت اور بے مثال کائنات کو پیدا کیا‘ اس آسمان کو اس کے بڑے بڑے ستاروں اور متحرک سیاروں سمیت پیدا کیا جو ایک محکم نظام اور انوکھی حرکت کے ساتھ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کر رہے ہیں‘ جنہیں اللہ کے سوا کوئی اور تھامے ہوئے نہیں ہے‘ یہ زمین اپنے پہاڑوں‘ وادیوں‘ ٹیلوں‘ نہروں‘ درختوں‘ کھیتوں‘ ہوا وپانی‘ خشکی وتری‘ رات ودن‘ اس میں رہنے سہنے اور اس پر چلنے پھرنے والوں سمیت‘ ان سب کو اللہ نے ہی عدم سے وجود بخشا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

ترجمہ: اور سورج کے لئے جو مقرره راه ہے وه اسی پر چلتا رہتا ہے۔ یہ اندازہ ہے مقرر کرده غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔

اور چاند کی ہم نے منزلیں مقررکر رکھی ہیں، یہاں تک کہ وه لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔(يـس:38 -40)۔

ترجمہ: اور زمین کو ہم نے بچھا دیا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں۔

تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے۔

اور کھجوروں کے بلند وباﻻ درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں۔(ق:7-10)۔

یہ اللہ عزیز وبرتر کی تخلیق ہے‘ اس نے زمین کو جائے قرار بنایا‘ اس کے اندر قوتِ کشش پیدا کردی اتنی مناسب مقدار میں جتنی اس پر زندگی گزارنے کے لئے ضروری تھی‘ چنانچہ اس کی کشش اتنی نہیں بڑھتی کہ اس پر حرکت کرنا دشوار ہوجائے اور نہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اس پر جینے والی مخلوقات (فضا میں) اڑنے لگیں‘ ہر چیز اللہ کے پاس اندازے سے ہے۔

اس نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا جس کے بغیر زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔

ترجمہ: ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔(الأنبياء:30)،

چنانچہ اس پانی کے ذریعہ پودے اور پھل اگاتا ہے‘ اس سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرتا ہے‘ زمین کو اس کی حفاظت کے لئے ہموار کرتا چنانچہ اس پانی کو زمین کے اندر سوتوں اور نہروں کى شکل میں پھیلا دیتا ہے۔

اس سے درختوں‘ پھولوں اور پرکشش حسن وجمال سے آراستہ ہرے بھرے با رونق باغات اگاتا ہے‘ اللہ ہی ہے جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی۔

سب سے پہلا انسان جسے اللہ نے پیدا کیا وہ ابو البشر آدم علیہ السلام ہیں‘ اللہ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر ٹھیک ٹھاک کرکے ان میں روح پھونکی‘ پھر ان (کی پسلی) سے ان کی بیوی کو پیدا کیا‘ پھر ان کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔

پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔

پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں واﻻ ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واﻻ ہے۔(المؤمنون:12-14)۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا

ترجمہ: اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو۔

کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟

ہم ہی نے تم میں موت کو متعین کر دیا ہے اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں۔

کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو۔(الواقعة:58-61)۔

آپ غور کریں کہ اللہ نے آپ کو کیسے پیدا کیا‘ آپ (اپنے اندر) عجیب وغریب طریقے کے دقیق وباریک آلات اور محکم وپختہ نظام پائیں گے جن کی کار وائیوں کے بارے میں آپ بہت ہی کم ہی جانتے ہیں‘ چہ جائیکہ آپ ان پر اپںا کنٹرول اور زور چلا سکیں‘ چنانچہ نظام ہاضمہ (کو ہی دیکھ لیں)‘ یہ کھانا ہضم کرنے کا ایک مکمل نظام ہے‘ جس کا آغاز منھ سے ہوتا ہے‘ جو کھانے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے تاکہ اس کو ہضم کرنا آسان ہوسکے‘ پھر لعاب (اپنا کام کرتا ہے) ‘ پھر لقمہ کو حلق کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے‘ اس کے بعد منھ کا کوّا غذائی نلی کا دروازہ کھولتا ہے‘ اور ہوائی نلی کا دروازہ بند کردیتا ہے‘ پھر وہ لقمہ حرکت پزیر غذائی نلی کے واسطے سے معدہ میں اتر جاتا ہے‘

معدہ کے اندر بھی ہضم کا عمل جاری رہتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ کھانا سیال مادہ میں تبدیل ہوجاتا ہے‘ اس کے لئے معدہ کا مرکزی دروازہ کھول دیا جاتا ہے‘ جہاں وہ باره آنتوں (Duodenum) میں منتقل ہوجاتا ہے‘ جن کے اندر ہضم کا عمل جاری رہتا ہے اور کھانے کے خام مادہ کو ایسے مناسب مادہ میں تبدیل کیا جاتا ہے جو جسم کے خلیوں کو غذا پہنچانے کے قابل ہو۔

پھر وہاں سے باریک ودقیق آنتوں میں منتقل ہوجاتا ہے جہاں ہضم کرنے کی آخری کارروائیاں مکمل ہوتی ہیں اور اس طرح وہ کھانا اس لائق بنتا ہے کہ آنتوں میں موجود نالیوں (Intestine villi) کے ذریعہ جذب کیا جا سکے تاکہ وہ خون کی لہر کے ساتھ رواں دواں ہوسکے۔

اسی طرح دروانِ خون کے اس کامل نظام کو بھی دیکھ لیجئے جو پرپیچ شریانوں میں اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اگر آپ انہیں الگ الگ کریں تو ان کی لمبائی ہزاروں کیلو میٹر سے بھی زائد ہوگی‘ یہ شریانیں ایک ایسے سنٹرل پمپنگ اسٹیشن سے جڑی ہوئی ہیں جسے دل کہا جاتا ہے‘ وہ ان شریانوں کے ذریعہ خون کو (پورے جسم میں) منتقل کرنے سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے۔

اس کے علاوہ سانس لینے کا بھی ایک نظام ہے‘ چوتھا نظام اعصاب کا ہے‘ پانچواں نظام فضلات کو باہر نکالنے کا ہے‘ چھٹا‘ ساتواں اور دسواں نظام بھى ہے‘ اتنے سارے نظام ہیں جن کے بارے میں ہر دن ہماری معلومات بڑھ رہی ہیں‘ اور اپنے اندر مخفی نظام ہائے قدرت کے بار ے میں ہماری جہالت ونا آشنائی‘ ہماری معرفت وآگہی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کون ہے جس نے انسان کو اس پختگی اور مہارت کے ساتھ پیدا کیا؟!

یہی وجہ ہے کہ کائنات میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے لئے شریک وساجھی ثابت کریں جبکہ اسی نے آپ کو پیدا کیا۔

آپ کھلے دل اور صاف وشفاف روح کے ساتھ آگے بڑھئے اور اللہ تعالی کی انوکھی اور بے مثال کاریگری پر غور وفکر کیجئے! یہ ہوا جس میں آپ ہر جگہ سانس لے رہے ہیں اور وہ آپ کے اندر داخل ہو رہی ہے جس میں کوئی ایسا رنگ نہیں جو نگاہوں کو مکدر کرے‘ اگر وہ چند منٹوں کے لئے رک جائے تو زندگی ختم ہوجائے گی‘ یہ پانی جو آپ نوش کرتے ہیں‘ وہ کھانا جو آپ تناول کرتے ہیں‘ یہ انسان جس سے آپ محبت کرتے ہیں‘ یہ زمین جس پر آپ چلتے پھرتے ہیں‘ وہ آسمان جس کی طرف آپ نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں‘ ہر وہ مخلوق جسے آپ کی آنکھ دیکھتی ہے یا وہ آپ کی نظر سے اوجھل ہے‘ خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی‘ وہ سب اللہ کی تخلیق کردہ ہیں‘ جو (ہر چیز کو) پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے۔

اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کرنے سے ہمیں اللہ کی عظمت وقدرت کا پتہ چلتا ہے‘ یقیناً وہ ایک نہایت بے وقوف‘ جاہل اور گمراہ شخص ہے جو اس عظیم اور انوکھی مخلوق کو دیکھے جو ہم آہنگ اور کامل ہے‘ جو (خالق کی) حیرت انگیز حکمت اور بے پناہ قدرت پر دلالت کرتی ہے‘ پھر بھی وہ اس خالق پر ایمان نہ لائے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے

“کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟

کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں”(الطور:35-36)۔

یقینا فطرت سلیمہ اللہ پاک وبرتر سے آشنا ہوتی ہے‘ اسے سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ کیوںکہ اللہ نے اس کی خلقت میں اپنی طرف متوجہ ہونے اور رب تعالی سے التجا کرنے کی خو ودیعت کر رکھی ہے‘ لیکن وہ (خارجی عناصر کے زیر اثر) گمراہی اور اللہ پاک سے دوری کا شکار ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب اسے ناگہانی آفت یا مصیبت‘ یاسخت پریشانی لاحق ہوتی ہے اور خشکی یا تری میں (کہیں بھی) اسے اپنی نگاہوں کے سامنے خطرات نظر آںے لگتے ہیں تو وہ فورا اللہ سے لو لگاتا ہے‘ اسی سے مدد طلب کرتا اور مصیبت سے نجات کی دعا کرتا ہے‘ اور اللہ پاک بے بس ولاچار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی پریشانی دور فرماتا ہے۔

یہ عظیم خالق ہر ایک چیز سے بڑا ہے‘ بلکہ اس کی کسی بھی مخلوق کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا‘ کیوںکہ وہ اتنا عظیم ہے کہ اس کی عظمت کی کوئی حد نہیں اور نہ کسی مخلوق کا علم اس کا احاطہ کرسکتا ہے‘ اس کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق پر بلند وبرتر ‘ اپنے آسمانوں کے اوپر ہے۔

”اس کے جیسی کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا‘ دیکھنے والا ہے“۔(الشوریٰ:11)

اس کی کوئی مخلوق اس کی ہم مثل نہیں‘ آپ کے ذہن میں جو بھی تصور آئے (تو آپ سمجھ لیجئے کہ) اللہ اس جیسا نہیں ہے۔وہ پاک پروردگار ہمیں آسمانوں کے اوپر سے دیکھ رہا ہے اور ہم اسے نہیں دیکھ رہے ہیں:

“اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے”۔(الأنعام:103)،

بلکہ (سچائی یہ ہے کہ) ہماری حس اور ہماری قوتیں اس دنیا میں اللہ پاک کو دیکھنے کی متحمل بھی نہیں۔

اللہ نے اپنے ایک نبی موسی علیہ السلام سے جبل طور کے پاس جب کلام کیا تو انہوں نے اللہ سے دیدار کا مطالبہ کرتے ہوئے عرض کیا: اے میرے پروردگار! اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں‘ تو اللہ تعالی نے ان سے ارشاد فرمایا

“تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وه اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے، پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہوکر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا بےشک آپ کی ذات منزه ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان ﻻنے واﻻ ہوں”۔(الاعراف: 143)،

معلوم ہوا کہ اللہ کی تجلی سے یہ عظیم اور بنلد وبالا پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوکر منہدم ہوگیا تو بھلا انسان اپنی ان کمزور وناتواں قوتوں سے کس طرح اس کا دیدار کر سکتا ہے۔اللہ پاک وبرتر کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے:

“اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو ہرادے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں”۔(فاطر:44)۔

اسی کے ہاتھ میں زندگی وموت (کا اختیار) ہے‘ ہر مخلوق اس کی محتاج ہے‘ اور وہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے‘ فرمان باری تعالی ہے:

“اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز خوبیوں واﻻ ہے”.(فاطر:15)۔

اللہ پاک کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے:

“اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں”۔

(الأنعام: 59)،

وہ ہماری زبانوں کی بات چیت اور ہمارے اعضاء وجوارح کے اعمال سے باخبر ہے‘ بلکہ ہمارے دلوں میں چھپے پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے:

“وه آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیده باتوں کو (خوب) جانتا ہے”۔(غافر:19)۔

اللہ پاک ہم کو دیکھ رہا ہے‘ وہ ہمارے احوال سے واقف ہے‘ زمین وآسمان کی کوئی بھی چیز اس سے مخفی نہیں‘ نہ وہ غافل ہوتا ہے‘ نہ بھولتا ہے‘ اور نہ اسے نیند آتی ہے‘ اللہ تعالی فرماتا ہے:

“اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زنده اور سب کا تھامنے واﻻ ہے، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، وه جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وه اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وه چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاﻇت سے نہ تھکتا اور نہ اکتاتا ہے، وه تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے”۔(الْبَقَرَہ: 255)

اس کی صفات مطلق طور پر کامل ہیں‘ ان میں نہ کوئی نقص ہے اور نہ کوئی عیب۔

اس کے اچھے اچھے نام اور بنلد وبالا صفات ہیں‘ اللہ تعالی فرماتا ہے

“اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی”۔(الأعراف: 180)

اللہ پاک کی بادشاہت میں نہ کوئی شریک ہے‘ نہ کوئی ہمسر اور نہ کوئی معاون ومددگار۔

وہ پاک پروردگار بیوی اور اولاد سے منزہ ہے‘ بلکہ وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہے‘ فرمان باری تعالی ہے:

”آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ ایک (ہی) ہے۔

اللہ بے نیاز ہے۔

اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔

اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے”۔

(الإخلاص: 1، 4)

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اوﻻد اختیار کی ہے

یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز ﻻئے ہو

قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں

کہ وه رحمان کی اوﻻد ﺛابت کرنے بیٹھے.

شان رحمٰن کے ﻻئق نہیں کہ وه اوﻻد رکھے

آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں”

(مريم: 88- -93)۔

وہ پاک پروردگار جلال وجمال‘ قوت وعظمت‘ بڑائی وکبریائی‘ بادشاہی وسلطانی اور غلبہ وقہاری سے متصف ہے۔

وہ جود وسخا‘عفو ودرگزر‘رحمت ورافت اورفضل واحسان سے بھی متصف ہے‘چنانچہ وہ رحمن ہے جس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔

وہ رحیم ہے جس کی رحمت ومہربانی اس کے غیظ وغضب پر سبقت کرچکی ہے۔

وہ کریم ہے جس کی نہ سخاوت کی کوئی حد ہے اور نہ اس کے خزانے ختم ہوتے ہیں۔

اس کے تمام نام خوبصورت ہیں جو اس کی نہایت کامل صفات پر دلالت کرتے ہیں‘ اتنی کامل کہ جو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے زیبا نہیں۔

اللہ پاک کی صفات سے واقفیت دل میں اللہ کی محبت وعظمت‘ خوف وخشیت اور خشوع وخضوع کو بڑھاتی ہے۔

اور لا الہ الا اللہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ عبودیت وبندگی کا ادنی ترین حصہ بھی اللہ کے سوا (کسی اور کے لئے) انجام نہ دیا جائے‘ کیوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں‘ بلکہ اللہ ہی الوہیت اور کمال کی صفات سے متصف ہے‘ وہی پیدا کرنے والا‘ رزق دینے والا‘ احسان وانعام کرنے والا‘ زندگی وموت دینے والا اور مخلوق پر فضل وکرم کرنے والا ہے‘ اور وہی تن تنہا تمام تر عبادتوں کا مستحق ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں۔

جو شخص اللہ کی عبادت سے انکار کرے‘ یا غیر اللہ کی عبادت کرے‘ تو اس نے شرک اور کفر کیا۔

کیوں کہ سجدہ ورکوع‘ خشوع وخضوع اور نماز کی ادائیگی صرف اللہ کے لئے کی جاسکتی ہے۔

صرف اللہ سے ہی مدد مانگی جاسکتی ہے‘ دعا بھی صرف اللہ سے ہی کی جاسکتی ہے‘ ہر طرح کی حاجت وضرورت بھی اللہ سے ہی طلب کی جاسکتی ہے‘ اور کسی بھی قسم کی قربت‘ اطاعت اور عبادت کے ذریعہ صرف اللہ کا ہی تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔

“آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔

اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں”۔

(الانعام: 162،163)

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے