دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

مقدمہ

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اپںے نفوس اور برے اعمال کے شر سے اسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے، وہی ہدیات یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی ہمنوا اور رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ڈھیروں درود وسلامتی نازل فرمائے۔

:حمد وصلاۃ کے بعد

آج ایک ایسی مختصر اور واضح کتاب کی سخت ضرورت ہے جو دینِ اسلام (کے تمام گوشوں) کو کامل طریقے سے پیش کرے‘ خواہ عقیدے سے متعلق ہو‘ یا عبادات ومعالات سے‘ یا آداب وغیرہ سے‘

جس کے پڑھنے والے کے ذہن میں دینِ اسلام کے تعلق سے ایک واضح اور جامع وکامل تصور پیدا ہوسکے‘ اور دینِ اسلام میں داخل ہونے والے (نو مسلم) کے لئے یہ کتاب اولین مرجع کی حیثیت رکھتی ہو جس سے وہ دین کے احکام وآداب اور اوامر ونواہی سیکھ سکے‘ نیز یہ کتاب اللہ کی طرف بلانے والے داعیوں کی دسترس میں ہو‘ وہ (دنیا کی) تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ کریں‘ دینِ اسلام کے تعلق سے سوال کرنے والے اور حلقئہ اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص کی خدمت میں اسے پیش کریں‘ پس اس کے ذریعہ اللہ تعالی جسے ہدایت سے سرفراز کرنا چاہے وہ ہدایت پاسکے‘ اور منحرف وگمراہ لوگوں پر حجت قائم ہوسکے۔

اس کتاب کی تالیف شروع کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اصول وضوابط وضع کئے جائیں جن کی پاسداری کرتے ہوئے یہ کتاب تالیف کی جائے‘ تاکہ ان کی روشنی میں اس کتاب کا مقصدِ اساسی شرمندہ تعبیر ہو سکے‘ ہم ذیل میں ایسے ہی کچھ اصول وضوابط ذکر کر رہے ہیں:

اس دین کا تعارف قرآن کریم کے نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک احادیث کی روشنی میں پیش کیا جائے‘ نہ کہ انسانوں (کے وضع کردہ) اسالیب اور متکلمین کے طریقوں کی روشنی میں جن کے ذریعہ بات چیت کرکے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اس کی مختلف وجوہات ہیں

ا- اللہ تعالی کا کلام سننے اور اس کے مقصد ومراد کو سمجھنے کے بعد اللہ تعالی جسے ہدایت دینا چاہتا ہے وہ ہدایت پا لیتا ہے اور سرکشی کرنے والے گمراہ شخص پر حجت قائم ہوجاتی ہے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے

ترجمہ: اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناه طلب کرے تو اسے پناه دے دو یہاں تک کہ وه اللہ کا کلام سن لے، پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دو۔(التوبۃ: 6)،

بسا اوقات انسانوں (کے وضع کردہ) اسالیب اور متکلمین کے طریقوں سے حجت قائم نہیں ہوتی‘ کیوںکہ ان میں نقص اور کمی پائی جاتی ہے۔

ب- اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسی طرح اس کا دین اور اس کی وحی (لوگوں تک) پہنچائیں جس طرح وہ نازل ہوئی‘ اللہ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے ہم اپنی طرف سے ایسے کلامی طریقے ایجاد کریں جن کے ذریعہ ہم ان کے دل تک پہنچنے کا گمان رکھیں‘ تو بھلا ہم کیوں اپنے آپ کو ایسے کام میں مصروف رکھیں جس کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا اور اس کام سے اعراض برتیں جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے؟

ج- دعوت کے دوسرے طریقے‘ جیسے تفصیل کے ساتھ فریق مخالف کی گمراہیوں کو واضح کرنا اور ان پر رد کرنا‘ خواہ عقیدے کے میدان میں ہو‘ یا عبادت کے معاملہ میں‘ یا اخلاق وآداب سے متعلق ہو یا اقتصاد ومعاش سے متعلق- یا فکری وعقلی بحث ومباحثہ کا طریقہ اختیار کرنا‘ جیسے وجود باری تعالی کو ثابت کرنا -اللہ تعالی ظالموں کے قول سے بہت بلند وبرتر ہے-‘ یا انجیل وتورات اور دوسری مذہبی کتابوں میں موجود تحریف پر بات کرنا اور ان کے باہمی ٹکڑاؤ‘ آپسی تضاد اور ان کے بطلان کو بیان کرنا‘

یہ سب فریقِ مخالف کے اصول ومبادی اور عقائد میں موجود بگاڑ کو واضح کرنے کا طریقہ ہوسکتا ہے‘ اسی طرح یہ مسلمان کے لئے ثقافتی توشہ بھی ہوسکتا ہے‘ -جبکہ اس سے نا واقفیت اسے نقصان بھی نہیں پہنچا سکتی- لیکن یہ مطلق طور پر ایسی بنیاد اور ایسا اصول نہیں ہوسکتا جس پر دعوت الی اللہ کی عمارت کھڑی ہوسکے۔

د- جو لوگ مذکورہ بالا راستوں سے اسلام میں داخل ہوتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ وہ حقیقی مسلمان ہوں‘ کیوںکہ بعض دفعہ ان میں سے کوئی شخص کسی خاص مسئلہ سے متاثر ہوکر اس دین کو قبول کر لیتا ہے جس کی بابت اس کے سامنے تفصیلی بات رکھی جاتی ہے‘ جب کہ وہ دین کے دیگر اہم اور بنیادی مسائل کے عقیدہ سے عاری ہوتا ہے‘ مثال کے طور پر وہ شخص جو اسلامی نظامِ اقتصاد سے متاثر ہو‘ لیکن وہ آخرت کے دن پر ایمان نہ لائے‘ یا جنوں اور شیاطین وغیرہ کے وجود پر ایمان نہ لائے۔

اس قسم کے لوگوں سے اسلام کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔

ھ- انسان کے نفوس اور دلوں پر قرآن کو غلبہ حاصل ہے‘ چنانچہ جب قرآن اور انسانی نفوس کے درمیان سے (تمام رکاوٹیں دور کر دی جاتی ہیں تو) پاکیزہ نفوس اس کی دعوت پر لبیک کہتے اور ایمان وتقوی کے بنلد وبالا منازل پر فائز ہو جاتے ہیں‘ پس قرآن اور ان نفوس کے درمیان کیوں کر رکاوٹ کھڑی کی جائے؟!

اس دین کا تعارف پیش کرتے ہوئے سابقہ پس منظر‘ حالات کے دباؤ اور رد عمل کی دخل اندازی قبول نہ کی جائے‘ بلکہ اسی طرح یہ دین پیش کیا جائے جس طرح نازل ہوا‘ اور اس کے لئے دین ہی کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو اس نے لوگوں کو خطاب کرنے اور استقامت وثابت قدمی کے منازل تک انہیں مرحلہ وار پہنچانے کے لئے پیش کیا ہے۔

تحریر وتالیف میں جہاں تک ممکن ہو آسان اسلوب اوراختصار کو محلوظ خاطر رکھا جائے‘ تاکہ کتاب کی نشر واشاعت کرنا اور لوگوں کے درمیان اسے رواج دینا آسان ہو۔

مان لیجئے کہ ہم نے یہ مرحلہ طے کرلیا‘ ہم نے کتاب کا ترجمہ بھی کرلیا‘ اس کے دسیوں ملین نسخے طبع بھی کرائے‘ دس ملین لوگوں کے ہاتھ میں کتاب پہنچ بھی گئی اور اس میں جو آیتیں اور احادیث آئی ہیں‘ ان پر ہر سو میں سے صرف ایک آدمی ایمان لایا‘ اور ننانوے فیصد لوگوں نے اس سے اعراض برتا‘ ہماری دعوت صرف ایک نے قبول کی جو (دین کی خاطر) تگ ودو کرتا اور اللہ سے خوف کھاتا ہے‘ وہ ایمان اور تقوی سے اپنے دامنِ مراد کو بھرنا چاہتا ہے‘ تو کیا آپ جانتے ہیں میرے محترم بھائی! کہ صرف ایک فیصد کا مطلب ہے ایک لاکھ انسان کا حلقہ بگوشِ اسلام ہونا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا‘ اگر اللہ تعالی آپ کے ذریعہ کسی ایک شخص کو بھی ہدایت عطا کرے تو یہ آپ کے لئے سرخ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔

بلکہ اگر ایسا بھی ہوکہ ان تمام لوگوں میں سے ایک شخص بھی ایمان نہ لائے‘ سب کے سب دین سے اعراض کریں‘ تب بھی ہم اپنی امانت ادا کرچکے ہوں گے اور اللہ نے ہمارے کندھوں پر تبلیغِ رسالت کی جو ذمہ داری ڈالی ہے‘ اس سے عہدہ برآ ہوچکے ہوں گے۔

یقین جانیں کہ اللہ کی طرف بلانے والے (داعیوں) کی ذمہ داری یہ نہیں کہ لوگوں کو اس دین کا قائل کریں‘ یا -کتابِ عزیز کی تعبیر میں- ان کی ہدایت کے حد سے زیادہ حریص رہیں:

ترجمہ: گو آپ ان کی ہدایت کے خواہش مند رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراه کر دے۔(النحل:37)،

بلکہ ان کی بنیادی ذمہ داری وہی ہے جو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی‘ جن سے ان کے عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا

ترجمہ: اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا۔(المائدة:67)۔

اللہ پاک وبرتر سے دعا ہے کہ دین الہی کو تمام لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کا معاون بنادے‘ ہمیں خیر وبھلائی کے دروازے کھولنے والا اور اس کی طرف بلانے والا بنائے‘ شرور وفتن کے دروازے بند کرنے والا اور ان کے سامنے سینہ سپر رہنے والا بنائے‘ واللہ اعلم وصلى اللہ على نبینا محمد۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے