دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

( محمد اللہ کے رسول (اور تمام نبیوں اور رسولوں کے -سلسلہ کو- ختم کرنے والے ہیں

عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد تقریبا چھ صدیوں کا لمبہ عرصہ گزر گیا‘ (اس مدت میں) لوگ ہدایت کے راستے سے منحرف ہوگئے اور ان کے درمیان کفر‘ گمراہی اور غیر اللہ کی عبادت عام ہوگی‘

چنانچہ اللہ تعالی نے حجاز کی سرزمین پر مکہ مکرمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا‘ تاکہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک وساجھی نہیں‘ اللہ نے آپ کی نبوت ورسالت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیوں اور معجزات سے آپ کو سرفراز فرمایا اور آپ کے ذریعہ رسولوں کا سلسلہ ختم کیا‘ آپ کے لائے ہوئے دین کو تمام ادیان کو ختم کرنے والا قرار دیا اور اسے رہتی دینا اور قیامت قائم ہونے تک کے لئے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ فرمایا‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد کون ہیں؟

آپ کی قوم کون ہے؟

اللہ نے کس طرح آپ کو رسول بنایا؟

آپ کی نبوت کے کیا دلائل وبراہین ہیں؟

اور آپ کی سیرت کی تفصیلات کیا ہیں؟

چند صفحات میں ہم انہی سوالوں کا مختصر جواب دینے کی کوشش کریں گے‘ ان شاء اللہ۔

ا- آپ کا حسب ونسب اور مقام ومرتبہ:

آپ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہیں‘ آپ کا نسب اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام تک پہنچتا ہے‘ آپ قبیلہ قریش کے چشم وچراغ تھے‘ اور قریش عرب کا ایک قبیلہ تھا‘ آپ کی ولادت مکہ مکرمہ میں سنہ ۵۷۱ عیسوی کو ہوئی۔

آپ ابھی رحم مادر میں ہی تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا‘ چنانچہ آپ نے اپنے دادا کی کفالت وسرپرستی میں یتیمى کى حالت میں نشو ونما پائی‘ پھر جب آپ کے دادا فوت ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔

ب- آپ کے اوصاف

ہم نے ذکر کیا کہ اللہ کی جانب سے منتخب کردہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ بلند نفسى‘ صدق گوئی اور حسن اخلاق کے اعلى مقام پر فائز ہو‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح تھے‘ چنانچہ آپ نے اس حال میں نشو ونما پائی کہ آپ صدق گو‘ امانت دار‘ خوش اخلاق‘ خوش گفتار‘ فصیح اللسان‘ قریب ودور ہر ایک کے محبوب وعزیز‘ اور اپنی قوم میں عظمت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے‘ وہ آپ کو امین کے لقب سے ہی پکارتے‘ اور جب سفر پر جاتے تو اپنی امانتیں آپ کے پاس ہی رکھ کر جاتے۔

حسن اخلاق سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہترین وخوبصورت ساخت کے تھے‘ آپ کے دیدار سے نگاہ ملول نہیں ہوتی تھی‘ سفید چہرہ‘ کشادہ آنکھیں‘ لمبی پلکیں‘ کالے بال‘ چوڑے کندھے‘ نہ زیادہ لمبے نہ ناٹے درمیانہ قد‘ اور لمبائی سے قریب تر تھے‘ آپ کے ایک صحابی آپ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمنی جوڑے میں ملبوس دیکھا‘ پھر کبھی (کسی کو) آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا”۔

آپ امی تھے‘ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے‘ آپ کی قوم بھی امی اور ناخواندہ تھی‘ ان میں بہت کم لوگ ہی اچھی طرح پڑھنا لکھنا جانتے تھے‘ لیکن وہ ذہین‘ حافظہ کے مضبوط اور حاضر جواب تھے۔

ج- قریش اور عرب:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اور آپ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بیتِ حرام اور اس کعبہ مشرفہ کے پڑوس میں سکونت پزیر تھا جس کی تعمیر کا حکم اللہ نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسماعیل کو دیا تھا۔

لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ وہ دینِ ابراہیمی (یعنی اللہ کی خالص عبادت) سے منحرف ہوگئے‘ وہ اور ان کے آس پڑوس کے قبیلوں نے کعبہ کے ارد گرد پتھر‘ درخت اور سونے کے بہت سے بت نصب کر دئے‘ وہ ان بتوں کا تقدس واحترام کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے کہ ان کے ہاتھ میں نفع ونقصان کی ملکیت ہے! نیز ان بتوں کی پرستش کے لئے انہوں نے بہت سے میلے اور عیدیں ایجاد کر لیں‘ ان میں ایک مشہور ترین بت ھُبل تھا‘ جو کہ سب سے بڑا بت تھا۔

ان کے علاوہ مکہ سے باہر اور بھی بہت سے بت اور درخت تھے جن کی پرستش کی جاتی اور حد درجہ تقدس واحترام کیا جاتا تھا‘ جیسے لات وعزی اور منات۔ ان عربوں کی زندگی اپنے ارد گرد کے ماحول سمیت کبر وغرو‘ فخر ومباہات‘ گھمنڈی وخود پسندی‘ دوسروں پر ظلم وستم اور گھمسان کی جنگوں سے بھری پڑی تھی‘ یہ اور بات ہے کہ ان کے اندر کچھ اچھے اخلاق بھی پائے جاتے تھے‘ جیسے شجاعت وبہادری‘ مہمان نوازی اور صدق گوئی وغیرہ۔

د- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کے ہوگئے اور آپ مکہ سے باہر غار حراء میں گوشہ نشیں تھے تو آپ پر اللہ کی جانب سے سب سے پہلی وحی نازل ہوئی‘ چنانچہ آپ کے پاس جبریل فرشتہ تشریف لائے اور آپ کو پکڑ کر بھینچا اور کہا: پڑھئے‘ آپ نے عرض کیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘ پھر دوسری مرتبہ انہوں نے آپ کو بھینچا یہاں تک کہ (اس کا دباؤ) آپ کی برداشت کی حد کو پہنچ گیا اور کہا: پڑھئے‘ آپ نے عرض کیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘ پھر تیسری مرتبہ انہوں نے آپ کو بھینچا یہاں تک کہ آپ کی برداشت کی آخری حد آگئی اور کہا: پڑھئے‘ آپ نے عرض کیا: میں کیا پڑھوں‘ جبرئیل نے کہا:

“پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔

جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔

تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے۔

جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔

جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا”۔(العلق:1-5)۔

اس کے بعد فرشتہ آپ کو چھوڑ کر رخصت ہوگیا‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لوٹ گئے اور خوف وہراس کے عالم میں گھبرائے ہوئے بیوی کے پاس پہنچے اور خدیجہ سے عرض کیا: مجھے چادر اوڑھا دو‘ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے‘ خدیجہ نے اپنے شوہر (کو تسلی دلاتے ہوئے) کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا‘ اللہ تعالی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیوں کہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں‘ ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں۔

پھر حضرت جبرئیل آپ کے پاس اپنی اصلی شکل میں آئے جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا‘ (بایں طور کہ) افق کو پورے طور پر گھیر لیا اور کہا: اے محمد! میں جبرئیل ہوں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔

پھر آسمان سے پے درپے وحی نازل ہوتی رہی‘ (جس میں) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں اور انہیں شرک وکفر سے منع کریں‘ چنانچہ آپ نے اپنی قوم کو انفرادی طور پر دعوت دینا شروع کر دیا‘ جو سب سے زیادہ قریبی تھے پہلے ان کو دعوت دی‘ تاکہ وہ دینِ اسلام میں داخل ہوں‘ چنانچہ سب سے پہلے آپ کی بیوی خدیجہ بنت خویلد‘ آپ کے دوست ابو بکر صدیق اور آپ کے چچا زاد علی بن ابی طالب آپ پر ایمان لائے۔

جب آپ کی قوم کو آپ کی دعوت کی خبر ملی تو وہ آپ کے خلاف مکر وسازش کے جال بننے لگے اور آپ سے دشمنی شروع کردی‘ آپ ایک دن صبح کے وقت اپنی قوم کے پاس نکلے اور انہیں بلند آوز سے پکارتے ہوئے کہا: یا صباحاہ! لوگوں کو جمع کرنے کے لئے یہ کلمہ بولا جاتا ہے‘ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی قوم کے لوگ آپ کی بات سننے کے لئے جمع ہوگئے‘ جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کروگے؟ انہوں نے کہا: ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا‘ آپ نے فرمایا: تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہا ہے،اتنا سننا تھا کہ ابولہب – جو آپ کا چچا تھا‘ وہ اور اس کی بیوی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیاد دشمنی رکھتے تھے- بول پڑا: تم تباہ ہوجاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

“ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وه (خود) ہلاک ہو گیا۔

نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔

وه عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔

اور اس کی بیوی بھی (جائے گی،) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے۔

اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی”۔(المسد:1-5)۔

اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے اور انہیں کہتے رہے: تم سب لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاؤگے‘ (لیکن انہوں نے جواب میں) کہا: کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بدلے صرف ایک ہی معبود قرار دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

اللہ کی جانب سے آیتیں بھی نازل ہوتی رہیں جو انہیں ہدایت وراستی کی دعوت دیتی اور وہ جس گمراہی میں غرق تھے‘ اس سے انہیں ڈراتی تھیں‘ ان آیتوں میں اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی تھا:

“آپ کہہ دیجئے! کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردیا اور کیا تم اس کا شریک مقرر کرتے ہو ، وہ اللہ سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اوراس میں برکت رکھ دی اوراس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔

پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی، یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے۔

اب بھی یہ روگرداں ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک (عذابِ آسمانی) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اور ﺛمودیوں کی کڑک ہوگی”(فصلت:9-13)۔

لیکن ان آیتوں اور اس دعوت سے ان کی سرکشی مزید بڑھ گئی اور حق کوقبول کرنے سے وہ اور تکبر کرنے لگے‘ بلکہ دینِ اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص کو سخت عذاب سے دوچار کرنے لگے‘ بطور خاص ان کمزور ونادار لوگوں کو جن کی حمایت کرنے والا کوئی نہ تھا‘ چنانچہ وہ ان میں سے کسی کے سینے پر بڑا پتھر رکھ دیتے اور سخت چلچلاتی دھوپ میں اسے بازاروں میں گھسیٹتے اور کہتے : دینِ محمد کا انکار کرو یا خوشی خوشی یہ سزا جھیلتے رہو‘ یہاں تک کہ بہت سے لوگ سخت سزا کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگئے۔

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے تو آپ کو اپنے چچا ابو طالب کی نصرت وحمایت حاصل تھی جو آپ سے محبت کرتے اور آپ پر مشفق ومہربان تھے‘اور وہ قبیلہ قریش کے ایک رعب دار اور پرہیبت سردار تھے‘ البتہ انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا۔

قریش نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی دعوت پر سودے بازی کرنے کی کوشش کی‘ چنانچہ آپ کے سامنے مال ودولت‘ بادشاہت اور پرکشش چیزوں کی پیش کش کی‘ بشرطیکہ آپ اس نئے دین کی طرف دعوت دینا چھوڑ دیں جس سے ان کے معبودوں کی توہین ہوتی تھی جنہیں وہ مقدس سمجھر اس کا احترام کرتے اور اللہ کے بجائے ان کی عبادت کرتے تھے‘ لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موقف میں سخت اور اٹل تھے‘ کیوںکہ یہ ایسا حکم تھا جسے اللہ نے لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا تھا‘ اگر آپ اس حکم سے دستبردار ہو جاتے تو اللہ تعالی آپ کو عذاب میں مبتلا کردیتا۔

آپ نے انہیں جواب دیا کہ میں تمہارا خیر اندیش ہوں اور تم میری قوم اور خاندان کے لوگ ہو۔

“اللہ کے قسم! اگر میں تمام لوگوں کو جھٹلا بھی دوں تو تمہیں نہیں جھٹلا سکتا اور اگر سارے لوگوں کے ساتھ فریب بھی کروں تو تمہارے ساتھ نہیں کرسکتا”۔

جب دعوتی مشن پر روک لگانے کے لئے سودے بازیاں کچھ کام نہ آئیں‘ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے تئیں قریش کی دشمنی فزوں تر ہوگئی‘ قریش نے ابو طالب سے مطالبہ کیا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد کردیں تاکہ وہ آپ کو قتل کر ڈالیں‘ اور اس کے بدلے قریش ابو طالب کو من چاہی چیز سے نوازیں گے‘ (اگر یہ پیش کش قبول نہ ہو تو) وہ ان کے درمیان آپ کے دین کی کھلے عام نصرت وحمایت کرنے سے باز آجائیں‘ چنانچہ آپ کے چچا نے آپ سے یہ گزارش کی کہ آپ اس دین کی طرف دعوت دینے سے باز آجائیں۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور آپ نے فرمایا:

“چچا جان! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں اور مجھ سے اس دین کو ترک کرنے کا مطالبہ کریں تو میں اسے ترک نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اللہ اسے غلبہ عطا کردے یا میں اس کی راہ میں جاں بحق ہوجاؤں”۔

یہ سن کر آپ کے چچا نے عرض کیا: آپ اپنے مشن پر قائم رہیں‘ اللہ کی قسم! وہ آپ کو ذرا بھی زک نہیں پہنچا سکتے‘ تا آنکہ میں آپ کا دفاع کرتے ہوئے قتل کردیا جاؤں‘ جب ابو طالب کی وفات کا وقت ہوا اور ان کے پاس قریش کے بعض سردار موجود تھے‘ تو ان کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اسلام قبول کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے: اے میرے چچا! آپ صرف ایک کلمہ کا اقرار کر لیجئے اس کی وجہ سے اللہ کے نزدیک میں آپ کے لئے حجت (اور سفارش) کروں گا‘ آپ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیجئے‘ اس پر سرداروں نے ابوطالب سے کہا: کیا آپ عبد المطلب کے دین سے پھر جائیں گے (آپ اپنے باپ داداؤں کے دین سے پھر جائیں گے) توابو طالب نے اپنے پرکھوں کے دین کوترک کرکے دین اسلام میں داخل ہونے کو گراں سمجھا اور شرک کی حالت میں فوت ہوئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے سخت حزن وملال ہوا کہ آپ کے چچا کی وفات شرک کی حالت میں ہوئی‘ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ آپ کو یہ خبر دی کہ:

“آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے،اور ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے”۔(الْقَصَص: 56)۔

آپ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (طرح طرح کی) اذیتیں پہنچنے لگیں‘ چنانچہ جب آپ کعبہ کے پاس محو عبادت ہوتے تو وہ (جانوروں کی) گندگیاں لے کر آپ کی پشت پر رکھ دیتے تھے۔

کی طرف نکلے تاکہ وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں‘ (یہ شہر مکہ سے

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہر طائف۷۰ کیلو میٹر کی دوری پر ہے)‘ طائف والوں نے مکہ والوں سے زیادہ سختی کے ساتھ آپ کی دعوت کا انکار کیا‘ اپنے اوباشوں کو بھڑکایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنگ باری کریں اور آپ کو طائف سے نکال باہر کریں‘ چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور آپ پر پتھر برساتے رہے یہاں تک کہ آپ کی مبارک پنڈلیاں خون آلود ہوگئیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے‘ ہاتھ اٹھایا اور مدد کی فریاد کی‘ چنانچہ اللہ نے آپ کے پاس فرشتہ کو بھیجا‘ فرشتہ نے آپ سے کہا: اگر آپ چاہیں تو اَخشبین -یعنی دو بڑے پہاڑوں- کو ان پر رکھ دوں‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف لوٹ گئے اور آپ پر ایمان لانے والے تمام صحابہ کرام کے تئیں آپ کی قوم کی دشمنی اور تصادم جاری رہا‘ پھر شہرِ یثرب -جو بعد میں مدینہ کے نام سے موسوم ہوا- سے ایک وفد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی‘ چنانچہ آپ نے ان کے ساتھ اپنے ایک صحابی کو بھیجا جن کا نام مصعب بن عمیر ہے‘ تاکہ وہ انہیں اسلامی احکام کی تعلیم دیں‘ ان کے ہاتھ پر مدینہ کے بہت سے باشندوں نے اسلام قبول کیا۔

(اسلام قبول کرنے والے مدینہ کے یہ باشندے) اگلے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ (آپ کے ہاتھ پر) اسلام کی بیعت لیں‘ پھر آپ نے اپنے مظلوم صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا‘ چنانچہ انہوں نے جوق در جوق اور انفرادی طور پر ہجرت کی -انہیں مہاجرین کے لقب سے نوازا گیا- مدینہ کے باشندوں نے پرتپاک انداز میں ان کا استقبال کیا‘ اپنے گھروں میں انہیں مہمان بنایا‘ اپنے مال ودولت اور اپنے گھروں کو ان کے درمیان برابر تقسیم کردیا -بعد میں یہ حضرات انصار کے نام سے موسوم ہوئے۔

پھر جب قریش کو اس ہجرت کی خبر ملی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینے کا فیصلہ لیا‘ انہوں نے طے کیا کہ آپ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیں جس میں آپ سو رہے تھے اور جب آپ نکلیں تو یکبارگی تلوار سے آپ کا سر قلم کردیں‘ اللہ نے ان مشرکوں (کی سازش) سے آپ کو بچا لیا‘ آپ ان کے درمیان سے نکل گئے اور انہیں احساس بھی نہ ہوا‘ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تاکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو امانیتں ودیعت تھیں‘ انہیں ان کے مالکوں کو لوٹا دیں۔

آپ ہجرت کے راستے میں ہی تھے کہ قریش نے (آپ کی تلاش کے لئے اپنے ہرکارے بھیج دئے اور) آپ کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے والے کے لئے قیمتی انعام مقرر کیا‘ لیکن اللہ تعالی نے آپ کو ان سے ےچا لیا اور آپ اپنے رفیق سفر کے ساتھ صحیح سالم مدینہ پہنچ گئے۔

مدینہ والوں نے خوشی خوشی‘ گرم جوشی اور فرحت وشادمانی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا‘ وہ سب کے سب رسول اللہ کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے باہر آگئے اور کہنے لگے: رسول اللہ آگئے‘ رسول اللہ آگئے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو جائے قرار بنایا‘ آپ نے مدینہ میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا تاکہ نمازیں قائم کی جاسکیں‘ آپ لوگوں کو اسلامی احکام سکھانے لگے‘ انہیں قرآن پڑھاتے اور حسن اخلاق کی تربیت کرتے‘ آپ کے صحابہ آپ سے رشد وہدیات سیکھنے کے لئے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے‘ جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوتا‘ ان کے اخلاق بلند ہوتے‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت مزید گہری ہوتی‘ وہ آپ کی بلند وبالا صفات سے متاثر ہوتے اور ان کے درمیان ایمانی اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگیا۔

مدینہ حقیقت میں مثالی شہر بن گیا جہاں سعادت وخوش بختی اور اخوت وہمدردی کی فضا قائم تھی‘ وہاں کے باشندوں کے درمیان مالدار وفقیر‘ گورے اور کالے‘ عربی اور عجمی کی کوئی تفریق نہ تھی‘ ان میں سے بعض کو بعض پر ایمان اور تقوی کے علاوہ کسی اور وجہ سے فضیلت وبرتری حاصل نہ تھی‘ ان چنیدہ صحابہ کرام سے تاریخ کی سب سے افضل ترین نسل رونما ہوئی۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے قریش اور اس کے اسلام دشمن ہمنواؤں کی جھڑپیں اور لڑائیاں شروع ہوئیں۔

چنانچہ ان کے درمیان پہلی جنگ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی میں ہوئی‘ اس جنگ کا نام غزوہ بدر کبرى ہے‘ اللہ تعالی نے (اس غزوہ میں) مسلمانوں کی نصرت وتائید کی‘ قریش کے مقابلے میں مسلم مجاہدوں کی تعداد313 تھی‘ جبکہ قریشی جنگجو 1000کی تعداد میں تھے‘ اس جنگ میں مسلمانوں کو کھلی نصرت وفتح ملی‘ اس میں قریش کے ستر جنگجو قتل ہوئے‘ جن میں سے اکثر ان کے سربرآوردہ اور سردار لوگ تھے‘ اور (ان کے) ستر لوگ قیدی بنا لئے گئے اور باقیوں نے راہ فرار اختیار کی۔

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان مختلف جنگیں ہوئیں‘ جس کے آخری سلسلہ کے طور پر (مکہ سے نکلنے کے آٹھ سال بعد) رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس قابل ہوگئے کہ آپ مکہ مکرمہ کی طرف ایک لشکر لےکر روانہ ہوں جس میں دس ہزار (۱۰۰۰۰) مسلم فوجی شامل تھے‘ اس لشکر کشی کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی فوج قریش سے ان کے گھر کے اندر جاکر مقابلہ کرb‘ آپ فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوئے‘ بڑی فتح ونصرت حاصل کی اور اس قبیلہ کو شکست دیا جس نے آپ کے قتل کی سازش کی‘ آپ کے صحابہ کو سزا دیا اور اس دین سے (لوگوں کو) روکا جسے آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے تھے۔

اس مشہور فتح کے بعد آپ نے انہیں جمع کیا اور ان سے کہا

“اے قریش کے لوگو! تمہارا کیا گمان ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟ انہوں نے کہا: آپ شریف ومعزز بھائی ہیں اور شریف ومعزز بھائی کے بیٹے ہیں‘ آپ نے فرمایا: جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو‘ آپ نے ان سے درگزر کردیا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی آزادی دی”۔

اس رد عمل سے متاثر ہوکر جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے‘ چنانچہ پورا جزیرہ عرب حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔

صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور آپ کے ساتھ حلقہ اسلام میں داخل ہونے والے

اس کے کچھ ہی عرصہ بعد رسول 114,000مسلمانوں نے حج کیا۔

آپ ان کے درمیان حج اکبر (عرفہ) کے دن کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا‘ جس میں آپ نے دین کے احکام اور اسلام کے شرائع کو بیان کیا‘ پھر ان سے کہا: شاید میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل پاؤں‘ اس لئے چاہئے کہ حاضر شخص یہ تعلیمات غیر موجود کو پہنچا دے، پھر آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: کیا میں نے (اللہ کا دین تم تک) پہنچا دیا؟ تو لوگوں نے کہا: ہاں‘ آپ نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ‘ (پھر فرمایا:) کیا میں نے پہنچا دیا؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں‘ آپ نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ۔

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کے بعد مدینہ لوٹ آئے اور ایک دن لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے ایک بندے کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو وہ دنیا میں ہمیشگی کی زندگی گزارے یا اللہ کے پاس (جو نعمتیں ہیں) انہیں ترجیح دے‘ تو اس نے اللہ کے پاس جو (نعمتیں ہیں) انہیں ترجیح دی‘ یہ سنتے ہی صحابہ کرام رو پڑے‘ وہ سمجھ گئے کہ آپ اپنے ہی تعلق سے گفتگو کر رہے ہیں اور اس دنیا سے آپ کی رحلت کا وقت قریب آگیا ہے‘ سن گیارہ ہجری کے تیسرے مہینہ کی بارہویں تاریخ کو سوموار کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدید ہوگئی اور نزع کی کیفیات شروع ہوگئیں‘ چنانچہ آپ نے اپنے صحابہ کی طرف الوداعی نظر سے دیکھا اور انہیں نماز کی پابندی کرنے کی وصیت فرمائی‘ اس کے بعد آپ کی مبارک روح پرواز کر گئی اور آپ رفیق اعلی سے جا ملے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صحابہ کرام کو شدید صدمہ اور انتہائی حزن وملال لاحق ہوا‘ یہ حادثہ ان پر اس قدر اثر انداز ہوا کہ اس ناگہانی واقعہ سے مبہوت ہوکر ان میں سے ایک شخص جوکہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں‘ اپنی تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: آج میں نے جس کو یہ کہتے سن لیا کہ رسول اللہ وفات پاگئے‘ اس کی گردن تن سے جدا کردوں گا۔

یہ سن کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اللہ تعالی کے اس فرمان کی یاد دہانی کرائی

“(حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا۔(آل عمران:144)۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنی تو بے ہوش ہوکر گر پڑے۔

یہ ہیں اللہ کے رسول اور تمام نبیوں اور رسولوں کے ختم کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف (جنت کی) خوش خبری سنانے اور (جہنم سے) ڈرانے والا بناکر بھیجا تھا‘ چنانچہ آپ نے پیغام پہنچا دیا‘ امانت ادا کردی اور امت کے ساتھ نصح وخیرخواہی کی۔

اللہ نے قرآن کریم کے ذریعہ آپ کی تائید کی جو آسمان سے نازل کردہ اللہ کا کلام ہے‘ جس کے پاس

“باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کرده حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے”۔(فصلت:42)‘

جس کی نظیر پیش کرنے کے لئے دنیا کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کے سارے لوگ بھی اگر جمع ہوجائیں تو اس کی نظیر نہیں پیش کرسکتے‘ گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔

جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔

ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔

پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جب کبھی وه پھلوں کا رزق دیئے جائیں گے اور ہم شکل ﻻئے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دیئے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وه ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں”۔(البقرة:21-25)،

یہ قرآن ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل ہے‘ ان سورتوں میں چھ ہزار سے زائد آیتیں ہیں‘ اللہ کا یہ چیلنج ہر زمانے کے انسانوں کے لئے ہے کہ وہ قرآن کی سورتوں جیسی کوئی ایک سورت ہی پیش کردیں‘ (معلوم رہے کہ) قرآن کی سب سے چھوٹی سورت صرف تین آیتوں پر مشتمل ہے۔

اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نہیں ہے‘ یہ اللہ کا ایک عظیم ترین معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے رسول کی تائید کی‘ نیز دیگر خوارق عادت معجزات کے ذریعہ بھی اللہ نے آپ کی تائید فرمائی‘ ان میں سے چند معجزات یہ ہیں

ھ- معجزات کے ذریعہ نبی ﷺ کی تائید

۱- آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کرتے‘ اپنا ہاتھ برتن میں رکھتے اور آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا چشمہ جاری ہوجاتا‘ اس پانی سے پورا لشکر سیراب ہوتا جبکہ ان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوتی۔

– آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کرتے اور کھانے میں اپنا ہاتھ رکھ دیتے‘ چنانچہ کھانے میں اتنی برکت ہوجاتی کہ

۱۵۰۰ صحابہ کرام اس کھانے سے شکم سیر ہوجاتے۔

۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر اللہ سے بارش کی دعا کرتے اور آپ اپنی جگہ سے ہٹتے بھی نہیں کہ بارش کی وجہ سے آپ کے رخ مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک کر زمین پر گرنے لگتے‘ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے معجزات ہیں۔

اللہ نے اپنی حفاظت وحمایت کے ذریعہ بھی کی آپ کی تائید فرمائی‘ چنانچہ آپ کے قتل کا اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے نور کو بجھانے کا ارادہ رکھنے والا کوئی شخص بھی آپ کے قریب نہ جا پاتا تھا، جیسا کہ ارشاد الہی ہے:

“اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا”۔(المائدة:67)۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم -تائید الہی کے ساتھ ساتھ- اپنے تمام تر اقوال واعمال میں ایک عمدہ نمونہ بھی تھے‘ آپ پر اللہ کی جانب سے جو احکام واوامر نازل ہوتے‘ سب سے پہلے آپ خود انہیں بروئے عمل لاتے‘ آپ اطاعتوں اور عبادتوں کی بجاآوری کے سب سے زیادہ حریص تھے‘ آپ لوگوں میں سب سے بڑے سخی وفیاض تھے‘ (جود وسخا کا عالم یہ تھا کہ ) آپ کے ہاتھ میں کوئی بھی مال ہوتا تو آپ اسے اللہ کی راہ میں مسکینوں‘ فقیروں اور حاجت مندوں پر خرچ کردیتے‘ یہاں تک کہ آپ نے اپنے ترکہ کے تعلق سے بھی اپنے صحابہ سے عرض کیا

“ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے‘ ہم جو کچھ بھی چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے” [2]

[2] اس حدیث کو امام احمد (2/463) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے جیسا کہ احمد شاکر نے المسند (۱۹/۹۲) کی تحقیق میں ذکر کیا ہے‘ [اس میں یہ الفاظ آئے ہیں]: (میرے وارثین کو (وراثت میں) ایک دینار بھی نہیں ملے گا‘ میں جو کچھ بھی چھوڑ جاؤں‘ ان میں سے میری بیویوں اور میرے خلیفہ کا خرچ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ صدقہ ہوگا)۔

جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بات ہے تو کوئی شخص آپ کےاخلاق (کی بلندی تک) نہیں پہنچ سکتا‘ جس نے بھی آپ کی صحبت اختیار کی اس نے آپ کو دل وجان سے چاہا‘ اس کی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی اولاد‘ ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو جاتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “میں نے رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم وگداز اور خوشبودار چیز نہیں چھوا‘ کبھی مجھ سے کسی چیز کے متعلق جو میں نے کردیا ہو‘ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا اور کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو‘ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تم نے کیوں نہیں کیا”۔[3][3] اسے بخاری (4/230) نے روایت کیا ہے۔

یہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کا تذکرہ ہے) جن کو اللہ نے اتنا اعلی وبالا مقام ومرتبہ عطا کیا اور تمام جہان والوں میں آپ کا ذکر اس قدر بلند کردیا کہ کائنات میں آج آپ کی طرح کسی اور کا ذکر نہیں ہوتا‘چنانچہ چودہ سو سال سے لاکھوں مؤذن روئے زمین کے مختلف گوشوں میں ہر دن پانچ دفعہ یہ آواز بلند کرتے ہیں : “أشہد أن محمدا رسول اللہ” (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)‘ کروڑوں نمازی روزانہ اپنی نمازوں میں دسیوں بار یہ کلمہ دہراتے ہیں : “أشہد أن محمدا رسول اللہ” (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)۔

و- صحابہ کرام

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے اسلامی دعوت کی ذمہ داری اٹھائی اور اس مشن کو لے کر زمین کے مشرق ومغرب میں پھیل گئے‘ وہ حقیقی معنوں میں اس دین کے بہترین داعی تھے‘ وہ زبان وگفتار میں سب سے سچے‘ عدل وانصاف میں سب سے بڑے‘ سب سے زیادہ امانت دار‘ لوگوں کی ہدایت کے سب سے بڑھ کر حریص اور ان کے درمیان خیر وبھلائی کی نشر واشاعت کے سب سے بڑے خواہاں تھے۔

وہ انبیاء کے اخلاق سے آراستہ ہوئے اور ان کے اوصاف وکردار کو اپنا رہبر وقائد بنایا‘ چنانچہ ان اخلاق کا یہ ظاہری اثر تھا کہ روئے زمین کی مختلف قومیں اس دین کو قبول کرنے پر آمادہ ہوئیں‘ چنانچہ مغربی افریقہ سے لے کر مشرقی ایشیا اور وسطِ یورپ تک بغیر کسی زور زبردستی کے جوق در جوق لوگ اس دین میں داخل ہوئے۔

یقیناً انبیاء کے بعد رسول اللہ کے صحابہ تمام لوگوں سے افضل ہیں‘ ان میں سب سے مشہور چار خلفائے راشدین ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی‘ وہ خلفاء یہ ہیں:

ابو بکر صدیق۔-

عمر بن الخطاب۔-

عثمان بن عفان۔-

علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہم)۔-

ان کے تعلق سے تمام مسلمان (اپنے دلوں میں) اعترافِ (خدمت) اور جذبہ تشکر محسوس کرتے ہیں‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت‘ سے محبت کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتے ہیں‘ ان کی تعظیم وتکریم کرتے اور انہیں ان کے شایانِ شان مقام ومرتبہ دیتے ہیں۔

(کوئی مسلمان) نہ ان سے بعض ونفرت رکھتا ہے اور نہ ان کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی گوارہ کرتا ہے‘ الا یہ کہ وہ دینِ اسلام کا منکر ہو‘ خواہ زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی ہی کیوں نہ کرتا ہو‘ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ ان (صحابہ) کی تعریف کی ہے:

“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو”۔(آل عمران: 110)۔

اور جب صحابہ کرام نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو اللہ نے ان کے لئے اپنی رضا وخوشنودی ثابت کردی‘ اللہ پاک کا فرمان ہے:

“یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی”۔(الفتح: 18)۔-

About The Author