دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

محرمات اور ممنوعات

– پہلا: شرک (اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لئے کسی بھی قسم کی بندگی بجا لانا)۔

مثلا وہ شخص جو غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرتا‘ یا غیر اللہ کو پکارتا‘ اس سے حاجت روائی کی فریاد کرتا‘ یا غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرتا‘ یا کسی بھی قسم کی دیگر عبادت غیر اللہ کے لئے انجام دیتا ہے‘ خواہ وہ پکارا جانے والا (معبود) زندہ ہو یا مردہ‘ قبر ہو یا بت‘ پتھر ہو یا درخت‘ فرشتہ ہو یا نبی یا ولی یا کوئی حیوان یا اس کے لئے علاوہ کچھ اور‘ یہ سب کا سب شرک ہے جسے اللہ تعالی معاف نہیں کرتا‘ الا یہ کہ بندہ توبہ کرکے نئے سرے سے اسلام میں داخل ہو۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا”۔(النساء: 48)۔

اسی لئے مسلمان اللہ عزوجل کے سوا نہ کسی کی عبادت کرتا ہے ‘ نہ کسی کو پکارتا ہے‘ اور نہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکتا ہے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔

اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں”۔(الأنعام:162-163)۔

یہ بھی شرک ہے کہ اللہ کے لئے بیوی یا بیٹے کا عقیدہ رکھا جائے -اللہ تعالی اس سے بہت زیادہ بلند وبرتر ہے- یا یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں جو اس کائنات میں تصرف کرتے ہیں۔

“اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں”(الأنبیاء: ۲۲)۔

– دوسرا: جادو‘ کہانت اور علمِ غیب کا دعوی کرنا

جادو اور کہانت (اٹکل سے مستقبل کی خبر دینا) کفر ہے‘ جادوگر اس وقت تک جادوگر نہیں بن سکتا جب تک کہ شیطانوں سے اس کا ربط ضبط نہ ہوجائے اور وہ غیر اللہ کی عبادت میں ملوث نہ ہوجائے‘ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے لئے جادوگروں کے پاس جانا جائز نہیں اور نہ ان کی تصدیق کرنا جائز ہے ان باتوں میں جن کا تعلق علم غیب کے دعوی سے اور ان واقعات وحوادث سے ہو جن کے بارے میں وہ دعوی کرتے ہیں کہ مستقبل میں وہ رونما ہونے والے ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

”کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا”۔(النمل: 65)۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا:

“وه غیب کا جاننے واﻻ ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔

سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے”۔(الجن: 26 – 27)۔

– تیسرا: ظلم وستم

ظلم ایک بہت کشادہ دروازہ ہے جس میں بہت سے برے اعمال اور بری صفات داخل ہیں جو فرد کو متاثر کرتی ہیں‘ اس میں انسان کا اپنی ذات پر ظلم کرنا‘ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر ظلم کرنا‘ اپنے معاشرہ پر ظلم کرنا بلکہ اپنے دشمنوں پر ظلم کرنا بھی داخل ہے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“کسی قوم کی عداوت تمہیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کردے‘ عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے”۔(المائدة: 8)۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

(میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو)۔[24].

اور نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے

(اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو گا، تب تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو گا، تب میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اسے ظلم کرنے سے روکو گے -یا فرمایا کہ تم اسے ظلم کرنے سے منع کرو گے-، یہی اس کی مدد کرنا ہے)۔[25]

[24] اس حدیث کو مسلم نے کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم (16/132) میں روایت کیا ہے۔

[25] اسے بخاری نے کتاب المظالم والغصب‘ باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما (3/168) میں روایت کیا ہے۔

– چوتھا: اللہ کی حرام کردہ جان کو قتل کرنا‘ الا یہ کہ حق کے ساتھ ہو:

دین اسلام میں قتل ایک بڑا سنگین جرم ہے جس پر اللہ نے دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور اس پر دنیا میں بھی سخت ترین سزا مرتب فرمائی ہے‘ وہ یہ کہ قاتل کو قتل کرنے (کا حکم دیا)‘ الا یہ کہ مقتول کے اولیا اسے معاف کردیں‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے واﻻ ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا”۔(المائدۃ: ۳۲)۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا

“اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے”۔(النساء:93)۔

– پانچواں: لوگوں کے مال ودولت پر حملہ کرنا:

خواہ چوری کے ذریعہ ہو یا ڈاکہ زنی کے ذریعہ‘ رشوت کے ذریعہ ہو یا حیلہ اور فریب کے ذریعہ یا کسی اور طریقہ سے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو، یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا،عذاب ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت وحکمت واﻻ ہے”۔(المائدة:38)۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا

” اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ”۔(البقرة:188)۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا

“جو لوگ ناحق ﻇلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے”۔(النساء:10)۔

معلوم ہوا کہ دوسروں کے مال پر حملہ کرنے (والوں سے) اسلام پوری طاقت کے ساتھ نمٹتا ہے اور اس معاملہ میں سخت رویہ اختیار کرتا ہے‘ حملہ کرنے والے پر ایسی بھاری بھرکم سزائیں مرتب کرتا ہے جو اس کے لئے اور اس جیسے ان تمام مجرموں کے لئے عبرت ہیں جو معاشرہ کے امن وسکون اور نظم وضبط کو بگاڑتے ہیں۔

– چھٹا: دھوکہ وفریب‘اور خیانت

خرید وفروخت‘ عہد وپیمان اور دیگر تمام معاملات میں دھوکہ وفریب‘ اور خیانت قابل مذمت صفات ہیں جن سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔

کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔

اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔

کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں۔

اس عظیم دن کے لئے۔

جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے”۔(المطففين:1-5)۔

اور نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے

(جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں) [26]۔

ایک جگہ اور اللہ فرماتا ہے

“یقینا دغا باز گنہگار اللہ کو اچھا نہیں لگتا”۔(النساء:107)۔

[26] اس حدیث کو امام مسلم نے کتاب الإیمان‘ باب قول النبی (من غشنا فلیس منا) (۲/۱۰۹) میں روایت کیا ہے۔- ساتواں: لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنا

سب وشتم‘ غیبت وچغلخوری‘ بغض وحسد‘ بد گمانی‘ جاسوسی اور مذاق واستہزا وغیرہ کے ذریعہ لوگوں کی عزت وناموس (پر حملہ کرنا)،اسلام ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے‘ جس میں محبت واخوت‘ باہمی یکجہتی اور آپسی تعاون کی فضا قائم ہو‘ اسی وجہ سے ایسی تمام سماجی بیماریوں کا وہ سختی سے مقابلہ کرتا ہے جو معاشرہ میں اختلاف پیدا کرنے اور اس کے افراد کے درمیان بغض وحسد اور کبر ونخوت کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں۔

اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹوﻻ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے واﻻ مہربان ہے”۔(الحجرات:11، 12)۔

اسی طرح اسلام‘ معاشرہ کے افراد کے درمیان نسلی اور طبقاتی امتیاز کا بھی سختی سے مقابلہ کرتا ہے ‘ کیوں کہ سب اس کی نظر میں برابر ہیں‘ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں سوائے اس دین وتقوی کی بنیاد پر جو ان میں سے کسی کے دل میں ہو‘ وہ سب کے سب یکساں طور پر نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اللہ تعالی فرماتا ہے

“اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے، یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے”۔(الحجرات: 13)۔

– آٹھواں: جوا بازی‘ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال:اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔

شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ”۔(المائدة:90، 91)۔

– نواں: مردار کا گوشت‘ (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت کھانا

وہ تمام گندی چیزیں جو انسان کے لئے نقصاندہ ہیں‘ اسی طرح وہ سارے جانور جنہیں غیر اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے (وہ حرام ہیں)‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے

“اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔

تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو‘ حرام ہے۔ پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے”۔(البقرة:172، 173)۔

– دسواں: زنا اور قوم لوط کے گناہ کا ارتکاب کرنا

زنا ایک شنیع اور مذموم عمل ہے جس سے اخلاق اور سماج میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے‘ نسب خلط ملط کا شکار ہوجاتا ہے‘ خاندان برباد ہوجاتے ہیں اور صحیح تربیت مفقود ہوجاتی ہے‘ زنا سے پیدا ہونے والے بچے جرم کی تلخی اور معاشرہ کی ناپسندیدگی کے احساس تلے دبے ہوتے ہیں‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے

’’اور زنا کے پاس بهی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے‘‘۔(الإسراء:32)۔

زنا کی وجہ سے ایسی جنسی بیماریاں پھیلتی ہیں جو معاشرہ کے ڈھانچہ کو منہدم کردیتی ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے بزرگوں میں نہیں تھیں) [27]۔

[27] اس حدیث کو ابن ماجہ نے کتاب الفتن‘ باب العقوبات (۲/۱۳۳۳) میں روایت کیا ہے اور البانی نےاس حدیث کو حسن کہا ہے (صحیح ابن ماجۃ) (۲/۳۷۰)۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے زناکاری تک پہنچانے والے تمام راستوں پر قدغن لگانے کا حکم دیا ہے‘ چنانچہ مسلمانوں کو حکم دیا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘ کیوں کہ حرام نگاہ زنا کی طرف لے جانے والے راستے کا پہلا چھور ہے‘ اسی طرح عورتوں کو بھی ستر پوشی‘ حجاب اور پاکدامنی کا حکم دیا ہے‘ تاکہ معاشرہ کو بدکاریوں کی خرابی سے محفوظ رکھا جا سکے‘ اس کے بالمقابل شادی کا حکم دیا‘ اس پر ابھارا اور اس کی رغبت دلائی اور اس پر اجر وثواب کا وعدہ فرمایا‘ بلکہ میاں بیوی کے درمیان جو جنسی لطف اندوزی ہوتی ہے‘ اس پر بھی اجر وثواب کا وعدہ فرمایا‘ تاکہ ایسے قابل احترام اور پاک دامن خانوادے وجود پزیر ہوں جو آج کے شیر خوار اور کل کے مردِ آہن کے لئے کامیاب تربیتی آماجگاہ بننے کے لائق ہوں۔- گیارہواں: سود خوری

سود معاش واقتصاد کی تباہی کا پیش خیمہ اور مال کے ضرورت مند کی ضروت کا استحصال ہے‘ خواہ یہ ضرورت مند تاجر ہو یا حاجت مند فقیر‘ سود کا مطلب ہے ایک متعینہ مدت تک کے لئے اس شرط پر مال قرض دینا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت متعین اضافی مال اسے ادا کرنا ہوگا‘ اس طرح سود دینے والا مال کے ضرورت مند فقیر ومحتاج کی حاجت کا استحصال کرتا اور اس کے کندھوں پر پے درپے قرضوں کا بوجھ ڈال دیتا ہے جو اصل سرمایہ سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

سود دینے والا‘ تاجر‘ یا صنعت کار‘ یا کسان یا ان جیسے تمام طبقات کا استحصال کرتا ہے جو معاش واقتصاد کی رفتار جاری رکھتے ہیں۔

انہیں نقد مال کی سخت ضرورت ہوتی ہے جس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انہیں جو قرض دیتا ہے‘ اس کے منافع سے زائد رقم ان پر تھوپ دیتا ہے‘ لیکن کساد بازاری اور نقصان کے پیش آمدہ خطرات میں وہ ان کا شریک نہیں ہوتا۔

جب اس تاجر کو (تجارت میں) نقصان ہوتا ہے تو اس پر قرضوں کا بوجھ اور قرض دینے والے کے سود کا بوجھ جمع ہوجاتے ہیں‘ جبکہ اگر وہ دونوں نفع ونقصان ہر دو صورت میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے‘ ایک محنت کرتا اور دوسرا اپنا مال لگاتا‘ جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ہے‘ تو معاش کی گاڑی مسلسل چلتی رہتی اور سب کو فائدہ پہنچتا رہتا۔اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے

“اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔

اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔

اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم میں علم ہو”۔(البقرة:278، 279، 280)۔

– بارہواں: بخیلی اور کنجوسی

یہ انانیت اور خود پسندی کی دلیل ہے‘ چنانچہ یہ بخیل اپنا مال ذخیرہ کرتا‘ فقیروں اور مسکینوں کو زکاۃ دینے سے انکار کرتا‘ معاشرہ سے کٹ کر رہتا اور آپسی تعاون اور باہمی اخوت وہمدردی کے اس اصول کا انکار کرتا ہے جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا ہے‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وه اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وه ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ آگاه ہے”۔(آل عمران:180)۔

-تیرہواں: دروغ گوئی اور جھوٹی گواہی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث گزر چکی ہے

(جھوٹ فجور کے راستے پر چلاتا ہے اور فجور آگ کی طرف لے جاتا ہے‘ انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے)۔

جھوٹ کی نہایت نا پسندیدہ قسموں میں جھوٹی گواہی بھی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بہت زیادہ متنفر کیا اور اس کے برے انجام سے متنبہ فرمایا‘ آپ نے بلند آواز سے اس کی وضاحت فرمائی اور اپنے صحابہ سے کہا

(کیا میں تمہیں بہت بڑے گناہ کی خبر نہ دوں؟ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے‘ پھر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات‘ آگاہ رہو! جھوٹی گواہی)۔[28]

آپ مسلسل اسے دہراتے رہے مقصد امت کو اس میں واقع ہونے سے ڈرانا تھا-

[28] اس حدیث کو بخاری نے کتاب الشہادات‘ باب ما قیل فی شہادۃ الزور (۳/۲۲۵) میں روایت کیا ہے۔

چودہواں: کبر وغرور‘ خود پسندی اور فخر وتکبر

کبر وغرور اور فخر وتکبر دینِ اسلام میں نہایت مذموم‘ حقیر اور ناپسند صفات ہیں‘ اللہ تعالی نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘ اور ان کے اخروی انجام کے تعلق سے فرمایا:

“کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھانہ جہنم میں نہیں؟”۔(الزمر:60)۔

معلوم ہوا کہ متکبر اور خود پسند شخص اللہ کی نظر میں مبغوض اور مخلوق کی نظر میں بھی قابلِ نفرت اور نا پسند ہوتا ہے۔

About The Author