دینِ اسلام

آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟

اس عظیم سوال کا جواب دینا نہایت اہم ہے‘ لیکن ضروری ہے کہ یہ جواب وحی الہی سے اخذ کیا جائے‘ کیوںکہ اللہ نے ہی ہمیں پیدا ہے اور وہی ہمیں ہماری تخلیق کے اصل مقصد کی خبر دیتا ہے‘ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:

”میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں”۔(سورۂ الذاریات: 56)

عبودیت وبندگی ایسی صفت ہے جو اللہ کی تمام مخلوقات میں پائی جاتی ہے‘ جن کی تعداد بے شمار ہے‘ اشرف المخلوقات (فرشتوں) سے لے کر اللہ کی دیگر عجیب وغریب مخلوقات تک تمام امتوں کی فطرت اور سرشت میں اللہ رب العالمین کی پاکی بیان کرنا اور بندگی بجا لانا داخل ہے۔

’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تعریف اور پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی (تسبیح) سمجھتے نہیں ہو‘‘۔(الاسراء: 44)

فرشتوں کو اسی طرح تسبیح کا الہام کیا جاتا ہے جس طرح بنی نوع آدم کو سانس لینے کا الہام کیا جاتا ہے۔

لیکن انسان کا اپنے خالق کی بندگی بجا لانا اختیاری ہے اجباری نہیں (یہ اختیار اسے بطور آزمائش دیا گیا ہے)

“اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے”.(التغابن: 2)

“کیا تو نہیں دیکھ رہا ہے کہ اللہ کے سامنے سجده میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی، ہاں بہت سے وه بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ﺛابت ہو چکا ہے، جسے رب ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے واﻻ نہیں”.(سورہ الحج: 18)۔

اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا‘ تاکہ اس عبادت کو بروئے عمل لانے کے سلسلے میں ہماری کامیابی (اور ناکامی) کو آزما سکے‘ چنانچہ جو شخص اللہ کی عبادت کرے‘ اس سے محبت رکھے‘ اس کے سامنے خشوع وخضوع اختیار کرے‘ اس کے احکام واوامر کو بجا لائے اور اس کے نواہی سے باز رہے‘ تو وہ اللہ کی رضا‘ اس کی رحمت اور محبت سے سرفراز ہوتا ہے اور اللہ تعالی اسے اچھے اجر وثواب سے نوازتا ہے۔

اس کے برعکس جو شخص اس اللہ کی عبادت سے انکار کرتا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور رزق عطا کیا‘ وہ (عبادت سے روگردانی کرتے ہوئے) تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے‘ اللہ کے اوامر کی بجاآوری اور اس کے نواہی سے دوری اختیار کرنے سے انکار کرتا ہے‘ تو وہ اللہ کا غضب‘ اس کی ناراضگی اور دردناک عذاب لے کر لوٹتا ہے‘ کیوں کہ اللہ نے ہمیں یوں ہی بے کار نہیں پیدا کیا اور ہمیں بے مقصد نہیں چھوڑ دیا‘ یقینا وہ ایک بڑا جاہل اور احمق ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں آیا‘ اسے کان‘ آنکھ اور عقل دی گئی‘ پھر وہ ایک مدت تک زندہ رہا‘ اس کے بعد اسے موت آگئی‘ اوراس بات سے بے خبر رہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا اور اس کے بعد وہ کہاں جانے والا ہے‘ جب کہ اللہ عزیز وبرتر فرماتا ہے:

“کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے”.(المؤمنون:115)۔

وہ شخص جو اللہ پر ایمان لائے‘ اس پر بھروسہ رکھے‘ اسی کو اپنا حاکم اور فیصل مانے‘ اس سے محبت رکھے‘ اس کے سامنے عاجزی وانکساری اختیار کرے‘ عبادتوں کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کرے اور ہر جگہ اسی کی رضا وخوشنودی کا جویا ہو‘ یہ شخص اور وہ شخص اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے جو اللہ کے ساتھ کفر کرے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی شکل وصورت بنائی‘ جو اس کی آیتوں کا اور اس کے دین کا انکار کرے‘ اور اس کے حکم کی تابعداری سے انکار کرے۔

پہلا شخص عزت وتکریم‘ جزا وثواب اور محبت وخوشنودی سے سرفراز ہوگا اور دوسرے شخص کو ناراضگی‘ غیظ وغضب اور سزا وعقاب ملے گا۔

اس وقت جب اللہ تعالی لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا‘ ان میں سے جو نیکو کار ہوں گے انہیں نعمتوں والی جنتوں میں انعام واکرام سے نوازے گا‘ اور جو شخص بدکار‘ متکبر اور اللہ کی عبادت سے روگردانی کرنے والا ہوگا اسے جہنم کی سزا سے دوچار کرے گا۔

آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب نیکو کار کو اس اللہ کی طرف سے جزا وثواب اور انعام واکرام سے نوازا جائے گا جو غنی اور سخی ہے‘ جس کی سخاوت اور رحمت کی کوئی انتہا نہیں اور جس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے‘ یقیناً یہ ثواب انتہائی درجہ کی نعمت کی شکل میں ملے گا‘ جو نہ کبھی ختم ہوگی اور نہ اسے زوال آئے گا (اس کے بارے میں مزید گفتگو اس کتاب میں ہم کہیں اور کریں گے)

اسی طرح آپ کافر کو ملنے والے دردناک عذاب اور سخت قسم کی سزا کا بھی تصور کرسکتے ہیں کہ (وہ کتنی ہولناک ہوگی) جب وہ اس اللہ کی جانب سے صادر ہوگی جو عظیم وبرتر ‘ قاہر وزور آور اور بڑائی وکبریائی والا ہے‘ اس کے غلبہ وقہاری اور بڑائی وکبریائی کی کوئی حد نہیں ہے۔

About The Author