اسلام کی تعلیمات اور اس کے اخلاق
أ- مامورات (وہ امور جن کا حکم دیا گیا ہے)
اب ہم چند ایسے اسلامی اخلاق وآداب ذکر کرنے جا رہے ہیں جن کے تعلق سے اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلم معاشرہ ان سے آراستہ وپیراستہ ہو‘ ہم مختصر انداز میں انہیں ذکر کر رہے ہیں‘ ہم نے اس بات کا مکمل اہتمام کیا ہے کہ یہ اخلاق اور آداب اسلام کے بنیادی مصادر یعنی کتاب الہی (قرآن کریم) اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کئے جائیں۔- پہلا: سچ بولنا
اسلام اپنی طرف نسبت رکھنے والے پیروکاروں پر سچ بولنا لازم ٹھہراتا ہے‘ صدق گوئی کو ان کی ایسی صفت اور پہچان قرار دیتا ہے کہ کسی بھی حال میں اس سے دستبردار ہونا ان کے لئے جائز نہیں‘ نیز انہیں دروغ گوئی سے نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا اور بلیغ ترین عبارت اور واضح ترین بیان کے ذریعہ کذب بیانی سے انہیں روکتا ہے‘ فرمان باری تعالی ہے:
“اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو”۔(التوبہ: 119)۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(تم سچ بولنے کو لازم پکڑو، بلاشبہ سچ نیکو کاری کا راستہ بتلاتا ہے اور نیکو کاری یقینًا جنت میں پہنچا دیتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں صدیق ( بہت سچا) لکھ دیا جاتا ہے،اور جھوٹ سے پرپیز کرو، کیوںکہ جھوٹ گناہ کا راستہ بتلاتا ہے اور بے شک گناہ جہنم میں پہنچا دیتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں کذاب ( نہایت جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے)۔[6]
[6] اسے بخاری (6094) اور مسلم (2607) نے روایت کیا ہے۔
دروغ گوئی مومنوں کی صفت نہیں‘ بلکہ یہ منافقوں کی صفت ہے[7] ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کہے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے)۔ [8]
[8] منافق وہ ہے جو ظاہر تو یہ کرے کہ وہ مسلمان ہے‘ لیکن اس کی حقیقی صورت حال اور دِلی عقیدہ دینِ اسلام پر ایمان لانے والے کے برعکس ہوتا ہے۔
[8] اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الإیمان‘ باب علامۃ المنافق میں روایت کیا ہے (۱/۱۵)
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام صدق گوئی کی صفت سے اس قدر لیس ہوئے کہ ان میں سے ایک شخص کا بیان ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دروغ گوئی (نام کی کوئی چیز ) جانتے بھی نہیں تھے۔ (یعنی ہمارے درمیان اس کا وجود نہ تھا)
– دوسرا: امانت ادا کرنا‘ عہد وپیمان پورا کرنا اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو!‘‘۔(النساء: 58)،
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا
“اور وعدے پورا کرو کیوں کہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔
اور جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے توﻻ کرو، یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے”۔(الإسراء: 34،35)۔
اللہ تعالی نے مومنوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا
“جو اللہ کے عہد (وپیمان) کو پورا کرتے ہیں اور قول وقرار کو توڑتے نہیں”۔(الرعد:20)۔
– تیسرا: تواضع وانکساری (کی پاسداری) اور کبر وغرور سے دوری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ متواضع اور منکسر المزاج تھے‘ اپنے صحابہ کے درمیان اسی طرح بیٹھتے جس طرح کوئی عام صحابی بیٹھتا‘ آپ یہ نا پسند کرتے کہ آپ کی آمد پر لوگ (استقبال کے لئے) اٹھ کھڑے ہوں‘ ضرورت مند انسان آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو لے جاتا اور جب تک آپ اس کی ضرورت پوری نہ کردیتے تب تک آپ کو نہیں چھوڑتا‘ نیز آپ نے مسلمانوں کو بھی تواضع کا حکم دیا‘ چنانچہ فرمایا: (اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو حتی کہ کوئی شخص دوسرے شخص پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے”۔[9]
[9] اس حدیث کو امام مسلم (۱۷/۲۰۰) نے کتاب الجنۃ‘ باب الصفات التی یعرف بھا أھل الجنۃ میں روایت کیا ہے۔
– چوتھا: سخاوت وفیاضی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنا:
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
“تم جو بھلی چیز اللہ کی راه میں دو گے اس کا فائده خود پاؤ گے، تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب کے لئے ہی خرچ کرنا چاہئے‘ تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا، اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا”۔(البقرة:272)۔
اللہ تعالی نے مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا
“وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو”۔(الإنسان:8)۔
جود وسخا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پیروی کرنے والے مومنوں کی صفت ہے‘ آپ کے پاس جتنا بھی مال ہوتا‘ آپ اسے خیر کے کاموں میں خرچ کردیتے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے
(ايسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چيز کا سوال کيا گيا ہو اور آپ ﷺ نے جواب ميں ’’نہيں‘‘ فرمايا ہو)۔
آپ ﷺ نے مہمان کی عزت وتکریم کی رغبت دلائی‘ چنانچہ فرمایا
(جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے‘ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے)۔[10]
[10] اس حدیث کو امام بخاری (6138) اور مسلم (47) نے روایت کیا ہے۔
– پانچواں: صبر وتحمل سے کام لینا اور اذیت کو برداشت کرنا:اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
“جو مصیبت تم پر آجائے اس پر صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے”۔(لقمان:17)۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا:
“اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے”۔(البقرة:153)۔
ایک جگہ اور اللہ فرماتا ہے “اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے”۔(النحل:96)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ اذیت کو برداشت کرنے والے تھے‘ آپ بد سلوکی کا بدلہ بد سلوکی سے نہیں دیتے تھے‘ آپ کی قوم نے آپ کو اذیت دی جبکہ آپ انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے‘ انہوں نے آپ کو مارا پیٹا یہاں تک کہ خون آلود کردیا‘ آپ اپنے چہرہ سے خون پوچھتے اور کہتے جاتے:
(اے اللہ ! تو میری قوم کو معاف کردے کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے)۔[11]
[11] اس حدیث کو بخاری نے کتاب المرتدین باب (۵) (۹/۲۰) میں روایت کیا ہے۔- چھٹا: حیا وشرمندگی
مسلمان پاکدامن اور باحیا ہوتا ہے‘ حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے‘ یہ حیا مسلمان کو عمدہ اخلاق اختیار کرنے پر آمادہ کرتی اور قول وعمل میں فحاشی اور بے حیائی سے روکتی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(حیا تو خیر ہی لاتی ہے)۔[12]
[12] اس حدیث کو بخاری نے کتاب الأدب باب الحیاء (۸/۳۵) میں روایت کیا ہے۔- ساتواں: والدین کی فرماں برداری
والدین کی فرماں برداری کرنا‘ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور عمدہ رویہ روا رکھنا اور ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا دینِ اسلام کے بنیادی واجبات میں سے ہیں‘ جوں جوں والدین بڑھاپے کو پہنچتے ہیں اور اولاد کے تئیں ان کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے‘ توں توں یہ ذمہ داری مزید مؤکد ہوتی جاتی ہے‘ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں والدین کی فرماں برداری کا حکم دیا ہے اور ان کے عظیم حقوق پر زور ڈالا ہے‘ چنانچہ اللہ تعالى فرماتا ہے:
“اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔
اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے”۔(الاسراء: 23-24)۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا
“ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے”۔(لقمان:14)-
ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: (میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا:
(تیری ماں‘ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں‘ اس نے تیسری بار عرض کیا: پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں‘ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ ہے)۔[13]
[13] اس حدیث کو بخاری نے کتاب الأدب باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ (۸/۲) میں روایت کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مسلمان پر ماں باپ کے سارے حکم کی تابعداری کرنا واجب ٹھہرایا ہے‘ الا یہ کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں‘ تو ایسی صورت میں مخلوق کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کی نافرمانی نہیں کی جائے گی‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے
“اگر وہ دونوں تچھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا‘ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچہی طرح بسر کرنا”۔(لقمان:15)۔
نیز اسلام نے مسلمان پر یہ بھی واجب قرار دیا ہے کہ وہ والدین کی عزت وتکریم کرے‘ ان کے لئے تواضع کے بازو پست رکھے‘ کردار وگفتار سے ان کی عزت افزائی کرے اور ہر ممکن طریقے سے ان کی فرمانبرداری کرے مثلا ان کے خورد ونوش‘ لباس وپوشاک اور علاج ومعالجہ کا انتظام کرے‘ ان کی اذیت وتکلیف دور کرے‘ ان کے لئے دعا واستغفار کرے‘ ان کا وعدہ پورا کرے اور ان کے دوستوں کی عزت وتکریم کرے۔
– آٹھواں: دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا
نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے
(مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو)۔[14]
[14] اس حدیث کو ابو داود نے کتاب السنۃ باب الدلیل على زیادۃ ونقصانہ (5/6) میں اور ترمذی نے کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ وزوجھا (3/457) میں روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے‘ اور البانی کا حکم دیکھنے کے لئے ملاحظہ کریں: صحیح ابی داود (3/886).
اور نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے
(میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں)۔[15]
[15] اس حدیث کو بخاری نے کتاب المناقب‘ باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (4/230) میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: (بلا شبہ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو تم میں سب سے اچھے اخلاق کے ہوں)۔
اور اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
“اور بے شک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے”۔(القلم:4)۔
اور نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے
(حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی مجھے مبعوث کیا گیا ہے)۔[16]
اس لئے مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کی فرماں برداری کرے‘ اسی طرح اپنی اولاد کے ساتھ بھی حسن سلوک کرے بایں طور کہ ان کی اچھی تربیت کرے‘ انہیں دینی تعلیمات سے روشناس کرے‘ انہیں دنیا وآخرت کی ہر نقصان دہ چیز سے دور رکھے‘ ان پر اپنال مال خرچ کرے یہاں تک کہ وہ خود کفیل ہوجائیں اور کمانے پر قادر ہوجائیں‘
اسی طرح مسلمان اپنی بیوی‘ اپنے بھائیوں‘ بہنوں‘ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں اور تمام لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے‘ اپنے بھائیوں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے‘ اپنے بڑوں کا احترام کرے‘ چھوٹوں پر شفقت ومہربانی کرے‘ اور پریشان حال کی باز پرس اور داد رسی کرے‘ (اپنے ان اعمال کے ذریعہ) اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل پیرا ہو:
“اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں سے، یتیموں سے، مسکینوں سے‘ قرابت دار ہمسایہ سے‘ اور بغل کے ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے”۔(النساء: 36)۔
اور نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
(جس کا اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے)۔[17]
[16] اس حدیث کو امام احمد نے المسند (۱۷/۸۰) میں روایت کیا ہے اور احمد شاکر نے کہا: اس کی سند صحیح ہے‘ نیز اسے بخاری نے کتاب الأدب میں‘ بیہقی نے شعب الإیمان میں اور حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے۔
[17] اس حدیث کو بخاری نے کتاب الأدب‘ باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ (۸/۱۳) میں روایت کیا ہے۔
– نواں: مظلوم کی مدد کرنے‘ حق کو ثابت کرنے اور عدل وانصاف کو رواج دینے کی خاطر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا:
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
“لڑو اللہ کی راه میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا”۔(البقرة:190)
ایک اور جگہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
“بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ﻇالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا”۔(النساء:75)۔
اسلامی جہاد کا مقصد ہے حق کو ثابت کرنا‘ لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کو عام کرنا‘ ان لوگوں سے قتال کرنا جو بندوں پر ظلم کرتے‘ ان کے حقوق سلب کرتے اور انہیں اللہ کی عبادت کرنے اور دین اسلام کو گلے لگانے سے روکتے ہیں‘ ساتھ ہی اسلام اس فکر کی تردید بھی کرتا ہے کہ لوگوں کو طاقت کے زور پر اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے ‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے:”دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں”۔(البقرۃ: 256)۔
اور جنگ کے دوران مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ عورت‘ چھوٹے بچے اور عمر دراز بوڑھے کو قتل کرے بلکہ ظلم پرور جنگجوؤں سے ہی قتال کرے۔
جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے اور اللہ کے پاس اس کے لئے بلند مقام اور بیش بہا اجر وثواب ہے‘ اللہ تعالی فرماتا ہے:
“جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مرده نہ سمجھیں، بلکہ وه زنده ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے”۔(آل عمران:169،170)۔- دسواں: دعا ومناجات‘ ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن
مومن کا ایمان جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر اللہ تعالی سے اس کا رشتہ بھی استوار ہوگا‘ وہ (کثرت سے) اللہ کو پکارے گا اور اس کے سامنے گریہ وزاری کرے گا کہ اس کی دنیاوی ضروریات پوری کردے اور آخرت میں اس کے گناہ معاف فرمائے اور بلند درجات پر فائز کرے‘ اللہ سخی وفیاض ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس سے مانگیں اور سوال کریں‘ اللہ پاک فرماتا ہے:
“جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ‘ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے‘ قبول کرتا ہوں”۔(البقرة: 186)۔
چنانچہ اللہ تعالی دعا قبول کرتا ہے بشرطیکہ وہ دعا بندہ کی خیر وبھلائی پر مشتمل ہو‘ اور ساتھ ہی اس دعا پر بندہ کو اجر وثواب سے بھی نوازتا ہے۔
مومن کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ شب وروز‘ علانیہ طور پر اور پوشیدہ انداز میں بکثرت اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے‘ چنانچہ مختلف طریقے سے اللہ تعالی کی تعظیم کرتا اور اس کے ذکر واذکار میں منہمک رہتا ہے‘ مثال کے طور پر یہ کلمات اور ان جیسے دیگر کلمات کا ورد کرتا رہتا ہے: سبحان اللہ‘ الحمد للہ‘ لا الہ الا اللہ‘ اللہ اکبر‘ اس ذکر پر اللہ کے بڑے اجر وثواب اور بیش بہا انعامات مرتب ہوتے ہیں‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(مفرِّدون بازی لے گئے‘ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! مفردون سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والے (مرد) اور اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں) [18]۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا:
“مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیاده کرو۔
اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو” (الأحزاب:41 ،42)‘ مزید اللہ پاک نے فرمایا: “اس لئے تم میرا ذکر کرو‘ میں بھی تمہیں یاد کروں گا‘ میری شکر گزاری کرو اور نا شکری سے بچو”۔(البقرة:152)۔
ذکر الہی میں اللہ کی کتاب -قرآن مجید- کی تلاوت بھی شامل ہے‘ چنانچہ بندہ جتنی کثرت سے قرآن کی تلاوت اور اس پر غور وفکر کرے گا‘ اسی قدر اللہ کے یہاں اس کا مقام ومرتبہ بھی بلند ہوگا۔[18] اس حدیث کو مسلم نے کتاب الذکر والدعاء – باب الحث على الذکر (17/4) میں روایت کیا ہے۔
قرآن پڑھنے والے سے قیامت کے دن کہا جائے گا:
(پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور اسی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے کہ دنیا میں پڑھا کرتا تھا‘ جہاں آخری آیت ختم کرے گا وہیں تیرا مقام ہوگا)۔[19]
[19] اس حدیث کو ابوداود (1464) نے روایت کیا اور مذکورہ الفاظ ابوداود کے روایت کردہ ہیں‘ نیز اسے ترمذی (1464) نے‘ نسائی نے (السنن الکبرى) (8056) میں اور احمد (6799). نے روایت کیا ہے۔
– گیارہواں: شرعی علم سیکھنا‘ لوگوں کو سکھانا اور اس کی دعوت دینا:آپ ﷺ نے فرمایا
(جو شخص کسی راستے میں حصول علم کی خاطر چلا ہو‘ تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی کوئی راہ آسان کردے گا‘ اور بلا شبہ فرشتے طالب علم کے کام سے رضا مندی کے اظہار کے طور پر اس کے لئے اپنا پر بچھادیتے ہیں)۔ [20]
[20] اس حدیث کو امام ترمذی نے ابواب العلم‘ باب فضل الفقہ فی العبادۃ (4/153) میں‘ ابوداود نے کتاب العلم‘ باب الحث على طلب العلم (4/153) میں اور ابن ماجہ نے المقدمہ (1/81) میں روایت کیا ہے اور البانی نے (صحیح الجامع) (5/302) میں اسے صحیح کہا ہے۔نبی ﷺ مزید ارشاد فرماتے ہیں:(تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے)۔[21]
ایک اور حدیث میں نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
(یقینا فرشتے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتا ہے‘ خیر وبرکت کی دعائیں کرتے ہیں)۔[22]
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
(جس نے کسی ہدایت (خیر کے کام) کی رہنمائی کی‘ اسے ان لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے‘ ان (بعد والوں) کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی)۔[23]
[21] اس حدیث کو بخاری نے کتاب الفضائل‘ باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (6/236)میں روایت کیا ہے۔
[22] اس حدیث کو ترمذی نے کتاب العلم‘ باب ما جاء فی فضل الفقہ على العبادۃ (5/50) میں اس سے زیادہ طویل سیاق کے ساتھ روایت کیا ہے۔
[23] اس حدیث کو مسلم نے کتاب العلم ‘ باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ (16/ 227) میں روایت کیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے
“اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں”۔(فصلت:33)۔
– بارہواں: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ سے راضی ہونا
اللہ کے مشروع کردہ کسی حکم پر اعتراض نہ کرنا‘ کیوں کہ اللہ پاک تمام حاکموں سے بہتر حاکم اور تمام مہربانوں سے بڑا مہربان ہے‘ زمین وآسمان کی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں‘ اس کا فیصلہ بندوں کی خواہشات اور ستم پروروں کی آرزؤں سے متاثر نہیں ہوتا‘ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے ایسے (احکام) مشروع کئے جو ان کی دنیا وآخرت کے لئے مفید ہیں‘ نیز اس سلسلے میں وہ بندوں کو ان کی طاقت سے بڑھ کر مکلف بھی نہیں کرتا‘ اس کی بندگی کا تقاضہ ہے کہ ہر معاملہ میں اللہ کے مشروع کردہ (قوانین واحکام کو ہی) فیصل بنایا جائے اور اس فیصلہ پر مکمل دِلی اطمینان وخوشی کا مظاہرہ کیا جائے۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
“سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں”۔[النساء:65]۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا
“کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے واﻻ کون ہوسکتا ہے؟”۔(المائدۃ : 50])۔