نوح علیہ السلام
ان کے اور آدم کے درمیان دس صدیوں کا فاصلہ تھا‘ جب ان کی قوم گمراہ ہوگئی اور اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرنے لگی تو اللہ نے ان کو اپنی قوم میں رسول بنا کر بھیجا ‘ ان کی قوم بتوں‘ پتھروں اور قبروں کی پرستش کرتی تھی‘ ان کے مشہور ترین “معبودوں” میں چند نام یہ ہیں: ود‘ سواع‘ یغوث‘ یعوق اور نسر‘ اللہ نے آپ کو ان کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ آپ انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف واپس لائیں‘ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ ہمیں اس کی خبر دی ہے
“ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا توانہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں، مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے”۔(الأعراف:59)۔
وہ لمبے عرصے تک اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے‘ لیکن بہت کم لوگوں ان پر ایمان لائے‘ چنانچہ انہوں نے اپنے رب کو یہ کہتے ہوئے پکارا
اے میرے پرورگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے۔
مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیاده بھاگنے لگے۔
میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لیے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔
پھر میں نے انہیں بآواز بلند بلایا۔
اور بے شک میں نےان سے علانیہ بھی کہا اور چپکے چپکے بھی۔
اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناه بخشواؤ (اور معافی مانگو) وه یقیناً بڑا بخشنے واﻻ ہے۔
وه تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔
اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اوﻻد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا۔
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری وعظمت کا عقیده نہیں رکھتے.
حاﻻنکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے”۔(نوح:5-14)
اس قدر پیہم کوششوں اور اپنی قوم کی ہدایت کی بے انتہا حرص وچاہت کے باوجود آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلا دیا‘ آپ کا مذاق اڑایا اور آپ پر پاگل اور دیوانہ ہونے کی تہمت لگائی۔
(آخر کار) اللہ نے آپ کو وحی کے ذریعہ یہ خبر دی کہ:
“تیری قوم میں سے جو ایمان ﻻ چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان ﻻئے گا ہی نہیں، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو”۔(هود:36)،
نیز آپ کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا جس پر آپ اپنے ساتھ ایمان لانے والوں کو سوار کریں:
“وه (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرتے وه ان کا مذاق اڑاتے، وه کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو۔
تمیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہمیشگی کی سزا اتر آئے۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک ماده) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان ﻻنے والے بہت ہی کم تھے۔
نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا، اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم واﻻ ہے۔
وه کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جا رہی تھی اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے لڑکے کو جو ایک کنارے پر تھا، پکار کر کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ره۔
اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناه میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے واﻻ کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا،اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وه ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا۔
فرما دیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ﻇالم لوگوں پر لعنت نازل ہو۔
نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعده بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وه تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وه چیز نہ مانگنی چاہئے جس کا تجھے مطلقاً علم نہ ہو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے۔
نوح نے کہا میرے پالنہار! میں تیری ہی پناه چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وه مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہو اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا، تو میں خساره پانے والوں میں ہو جاؤں گا۔
فرما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وه امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائده تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔(هود:38-48)۔